بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں شہریوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرنے والے شرپسند عناصر کے خلاف کارروائی کے دوران پاک فوج کے ایک میجر اور ایک حوالدار شہید ہو گئے جبکہ تین دہشت گرد مارے گئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری بیان کے مطابق 14 نومبر کو ضلع ہرنائی میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی اطلاع ملنے پر سیکورٹی فورسز نے کارروائی کی۔ علاقے کو کلیئر کرنے کے لئے فوری طور پر میجر محمد حسیب کی قیادت میں سیکورٹی اہلکاروں کو روانہ کیا گیا۔ سیکورٹی فورسز نے موثر طریقے سے دہشت گردوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں تین دہشت گرد ہلاک ہوئے جبکہ کارروائی کے دوران ایک دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد سیکورٹی فورسز کی اگلی گاڑی پر آ کر پھٹ گیا جس کے باعث فرنٹ لائین پر اپنی ٹیم کی قیادت کرنے والے میجر محمد حسیب اور حوالدار نور احمد نے بہادری سے لڑتے ہوئے وطن پر اپنی جان قربان کر دی اور شہادت سے سرفراز ہوئے۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز قوم کے شانہ بشانہ بلوچستان کے امن، استحکام اور ترقی کو سبوتاڑ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے عزم پر قائم ہیں۔
صدر مملکت آصف علی زرداری ، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگتی سمیت قومی سیاسی، حکومتی قیادتوں نے ہرنائی اپریشن کی کامیابی اور اس میں شہداء کو ان کی جانوں کے نذرانے پیش کرنے پر زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ شہداء کی لازوال قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دریں اثناء ہرنائی میں شہید ہونے والے میجر حسیب کی نمازِ جنازہ چکلالہ راولپنڈی میں ادا کی گئی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے شہید کی میّت کو کندھا دیا اور ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔
اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ بہادر افسران اور جوانوں کی قربانیاں دفاع وطن کے غیر متزلزل عزم کا ثبوت ہیں۔ قوم فتنہ الخوارج اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔ نمازِ جنازہ میں وفاقی وزیر احسن اقبال، شہید کے لواحقین اور اعلیٰ سول و فوجی حکام نے بھی شرکت کی۔
دریں اثناء امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان دیدانت پٹیل نے کہا ہے کہ علاقائی سلامتی پاکستان اور امریکہ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ امریکہ کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر خودکش حملے سمیت پاکستان میں ہونے والی ہر دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔ہم متاثرین اور ان کے اہل خانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ امریکہ بلوچستان کی تنظیم بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔
بدقسمتی سے اس ارض وطن پر دہشت گردی کی جڑیں 2001 ء کے امریکی سانحہ نائین الیون کے بعد افغانستان میں شروع کی گئی امریکی نیٹو افواج کی جنگ میں پاکستان کی جانب سے امریکی فرنٹ لائین اتحادی کا کردار قبول کرنے کے نتیجہ میں پھلنا پھولنا شروع ہوئیں۔ ہمارے اسی کردار کے ردعمل میں تحریک طالبان افغانستان اور دوسری افغان انتہاء پسند تنظیموں کی جانب سے پاکستان کے علاقوں شمالی، جنوبی وزیرستان، خیبر پی کے اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا گیا جس سے ملک میں امن و امان کی خرابی کا تاثر ملا تو ہمارے ازلی دشمن بھارت نے بھی ان حالات سے فائدہ اٹھا کر دہشت گردوں کی سرپرستی کا سلسلہ شروع کیا جس کی سرپرستی اور فنڈنگ کے ساتھ انتہاء پسند گروپوں کے دہشت گردوں کو افغان سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہونے اور یہاں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرنے کا موقع ملا۔ بلوچستان میں اس وقت فرقہ واریت کی بنیاد پر دہشت گردی اِکّا دکّا وارداتیں ہوتی رہتی تھیں مگر 2005ء میں مشرف حکومت نے بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگتی کے خلاف اپریشن کا آغاز کیا جس کے دوران وہ اپنے محفوظ ٹھکانے پر سرنگ کے اندر ہلاک ہو گئے تو اس کے ردعمل میں ناراض بلوچ نوجوان بھی حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے کے لئے سرگرم ہو گئے اور بھارت نے موقع سے فائد ہ اٹھا کر ان کی بھی سرپرستی اور فنڈنگ شروع کر دی۔ اسی دوران بلوچستان کی علیحدگی پسند عسکری تنظیمیں بی ایل ایف اور بی ایل اے بھی متحرک ہوئیں ، جنہوں نے بلوچستان میں پاکستان مخالف تحریک کا آغاز کیا اور بالخصوص پنجابی آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کر دیا جو ہنوز جاری ہے۔ اسی طرح بلوچستان کی محرومیوں کا بھی علیحدگی پسند عناصر کی جانب سے شور اٹھنے لگا جنہوں نے امریکی کانگرس تک سے قراردادیں منظور کرا لیں۔
مشرف کے بعد تشکیل پانے والی سول حکومتوں نے ناراض بلوچوں کو مطمئن کرنے اور سیاست کے قومی دھارے میں لانے کی ہرممکن کوشش کی اور بلوچستان کی ترقی کے لئے مختلف پیکجز کا بھی اعلان کیا مگر بھارت کی آشیرباد کے ساتھ یہ عناصر بلوچستان میں پاکستان مخالف جذبات ابھارتے رہے۔
2014ء میں پاکستان اور چین کے مابین گوادر پورٹ سے منسلک اقتصادی راہداری (سی پیک) کا آغاز ہوا جو پاکستان کی اقتصادی ترقی و خوشحالی کے لئے بلاشبہ ایک گیم چینجر منصوبہ ہے چنانچہ بھارت نے اس منصوبے کو سبوتاڑ کرنے کی سازشوں کا بھی آغاز کر دیا جس کے لئے علیحدگی پسند عناصر کی صفوں میں موجود دہشت گردوں کی خدمات حاصل کی گئیں جنہوں نے گوادر پورٹ کے نواحی علاقوں میں بالخصوص چینی باشندوں اور سی پیک پر کام کرنے والے چینی انجینئروں کو ٹارگٹ کر کے انہیں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کا مقصد پاکستان اور چین کے مابین غلط فہمیاں پیدا کر کے ان کی بے لوث دوستی میں دراڑیں ڈالنے کا بھی تھا۔ اس حوالے سے بطور خاص گزشتہ ماہ اکتوبر میں مستونگ میں چینی باشندوں کو ٹارگٹ کر کے دہشت پھیلائی گئی اور کراچی میں چینی انجینئروں اور سرمایہ کاروں کو ٹارگٹ کیا گیا جس سے دو چینی انجینئر ہلاک ہوئے۔
ان وارداتوں میں بھی بی ایل اے کے دہشت گرد شامل تھے جبکہ بی ایل اے نے کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری بھی واردات کے فوری بعد قبول کر لی تو اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ بلوچستان کی یہ دہشت گرد تنظیم دہشت گردی کی گھنائونی وارداتوں کے ذریعے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے اور پاکستان چین تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کے بھارتی ایجنڈے کو پایہ تکمیل کو پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں بہرحال خیبر پی کے اور بلوچستان میں پاک افغان سرحدوں پر مکمل چیک رکھنے اور سیکورٹی فورسز میں موجود لیپس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
چینی باشندوں اور ملک کی سیکورٹی فورسز کو ٹارگٹ کر کے یکے بعد دیگرے بلوچستان میں کی جانے والی دہشت گردی کی وارداتوں سے ملک سے باہر امن و امان کے حوالے سے پاکستان کا تشخص بھی متاثر ہو رہا ہے اور اس سے لامحالہ چین کے تحفظات بھی بڑھے ہیں تاہم چین اور پاکستان کی قیادتوں نے دوطرفہ گفت و شنید سے دہشت گردی کے پس پردہ کارفرما مشترکہ دشمن کا کھوج لگا کر دہشت گردوں کی باہمی تعاون سے سرکوبی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے بھی اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا ہے کہ چینی شہریوں کی سیکورٹی کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا اور کسی کو پاکستان چین دوستی خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
امریکہ کی جانب سے بظاہر تو دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا اظہار کیا جاتا ہے مگر عملاً پاکستان کے ساتھ امریکی طرز عمل سرد مہری والا ہے جس نے سپورٹ فنڈ کی مد میں پاکستان کی گرانٹ پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔ دہشت گردی صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ اس پورے خطے اور پورے کرہ ارض میں انسانی بقاء کا مسئلہ ہے جس کے تدارک کے لئے اقوام عالم کی جانب سے موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ محض زبانی جمع خرچ اور پاکستان سے محض ہمدردی کے اظہار سے اس ناسور کا خاتمہ ممکن نہیں ہو گا۔ دہشت گردی کے اصل روٹ کاز پر سخت ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ افواج پاکستان تو بلاشبہ اپنی قیمتی جانوں کی قربانیاں دے کر دفاع وطن اور ملک میں امن و استحکام کے تقاضے پورے کر رہی ہیں۔