لاہور (خبر نگار) ہائیکورٹ نے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کو ظالمانہ اور برطانوی دور کی یادگار قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر اس ایکٹ کو بہتر کر لیا جاتا تو آج ماحولیاتی اعتبار سے لاہور کا یہ حال نہ ہوتا، جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو کنٹرول کرنا ہوگا اور دس مرلہ، اس سے بڑے گھروں اور کمرشل بلڈنگز میں ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لازمی لگائے جائیں۔ ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے سموگ کے تدارک کیلئے کیس کی سماعت کے دوران ماحولیات سے متعلق طویل مدت پالیسی بنانے پر زور دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ زیر زمین پانی پر ابھی تک بہت کام ہونا باقی ہے، پچھلے پانچ برس سے رکے ہوئے پراجیکٹ شروع کرکے اس حکومت نے احسن اقدام کیا ہے لیکن فوڈ سکیورٹی بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ پنجاب حکومت نے ایشیئن ڈویلپمنٹ بنک سے دریا راوی کو بحال کرنے کی سٹڈی کروائی ہے حکومت اس معاملے کو بھی دیکھے اگر یہ ریسرچ کسی کام آسکے۔ بیجنگ اور ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر صنعتوں کو شہر سے دور منتقل کرنے کی پالیسی بھی بنائی جانی چاہئے۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے سموگ تدارک کیلئے مختص بجٹ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے بالکل لانگ ٹرم پالیسی بنائی ہوئی ہے، 48.88 ارب صرف الیکٹرک بسوں کے لئے مختص کئے گئے ہیں، زیر زمین پانی کے تحفظ کیلئے بھی بجٹ مختص ہو چکا ہے، فیصل آباد ، ساہیوال اور سیالکوٹ میں ٹریٹمنٹ پلانٹ کے لئے چار ہزار ملین روپے سے پراجیکٹ 2025 میں مکمل ہو جائے گا اور مری میں پانی سٹور کرنے اور اسکی ٹریٹمنٹ بھی پلان کا حصہ ہے جبکہ سیلاب، پانی کی کمی اور ہوا کی کوالٹی اولین بہتر کرنا حکومتی ترجیحات ہیں اور اس پلان پر عمل کرتے ہوئے سیلاب سے بچنے کے اقدامات شروع کردئیے گئے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے سموگ کا سبب بننے والی گاڑیوں کے دھوئیں چیک کرنے والی 30 مشینوں کی حکومتی کو دستیاب ہونے کی رپورٹ بھی عدالت کو پیش کی۔