کیا پرانے شکاری کوئی نیا جال تو نہیں بُن رہے؟ دکھائی تو ایسے ہی دیتا ہے۔ نئے جال کو پھیلانے اور پاکستان اور پاکستانی عوام کو پھنسانے کے لئے آصف علی زرداری پہلے سے بھی زیادہ خلوص حکمرانی کے ساتھ اپنی جمہوریت کے آقا کے تعاون کے لئے بے چین بلکہ بدچین دکھائی دیتے ہیں روز رفتہ ان کے بابر بعیش کوش نے بتایا تھا کہ امریکی سینیٹر مارک ریڈل کی قیادت میں جس وفد نے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔ اس وفد سے ملک کے باشعور عوام کے انتخاب آصف علی زرداری نے ’’دونوں ممالک کے تعلقات، باہم تعاون، عسکریت پسندی کے خلاف جنگ، مذہبی، سیاسی اور معاشرتی امور پر تبادلہ خیال کیا تھا‘‘ ملک میں تو این آر او جمہوریت کا طوفان گیلانی بپا ہے جس میں اس طوفان کے چیف ایگزیکٹو یوسف رضا گیلانی بھی ڈبکیاں لے رہے ہیں اور امریکی وفد نے جس میں وائٹ ہائوس کے ترجمان بھی شامل تھے۔ گیلانی کی بجائے آصف علی زرداری سے ملاقات کی تھی اور اتنے اہم معاملات اور تعاون کے بارے میں ان سے کیوں مذاکرات کئے تھے؟ اس آصف علی زرداری سے جو فرماتے ہیں کہ انہوں نے خود 18ویں ترمیم پاس کروا کر پارلیمنٹ کو ملک کی حکمران بنا دیا ہوا ہے اس اصل حکمران پارلیمنٹ کے قائد ایوان تو سید اور گیلانی یوسف رضا ہیں اور اتنے اہم امور کے بارے میں تعاون کے مذاکرات امریکیوں نے بے اختیار آصف علی زرداری سے کئے تھے۔ کیوں؟ کیا بتائیں گے اس بارے میں قانونیات کے ڈاکٹر بابر اعوان کچھ؟ اور مذہبی امور پر تبادلہ خیال؟ کس نے مذہب کے امور کے بارے میں؟ کیا بتائیں گے حضرت اور مولانا فضل الرحمن کچھ؟ ملک کے عوام کو بتانا ان کے مفاداتی سیاسی مذہب کے خلاف ہو تو وہ اپنے ہم مسلک امن پسندوں کو ہی بتا دیں چپکے سے۔ اور سیاسی امور؟ کون سے سیاسی امور؟ بارک حسین اوباما اور آصف علی زرداری کو درپیش سیاسی مشکلات سے انہیں نکالنے کے باہمی امور؟ اس کے علاوہ تو کچھ سمجھ نہیں آتا۔ بھٹو گدی کے زرداری نشین نے امریکی وفد کو یہ بھی بتایا تھا کہ ’’یہ جمہوریت کی خوبصورتی ہے کہ فوج نے وہاں بھی آپریشن کیا جہاں وہ اس سے قبل نہیں گئی تھی‘‘ کون سی جمہوریت کی خوبصورتی ہے یہ؟ اس جمہوریت کی خوبصورتی جس کے تحفظ کے لئے ان کی بی بی جی اور رائے ونڈ کے جمہوری تبلیغی مرکز کے میاں جی نے میثاق کیا ہوا ہے یا اس جمہوریت کی خوبصورتی جسے رائیونڈ جمہوری تبلیغی مرکز والے اب بمبینو سینما مالکان کی جمہوریت بتانے لگے ہیں؟ امریکی وفد اور بمبینو سینما مالک کے درمیان مذاکرات نہیں ہوئے ہوں گے۔ امریکی وفد اور وائٹ ہائوس کا ترجمان بینک اوباما کے مذہب کے بارے میں بھی مذاکرات نہیں کرنا آیا ہوا تھا پھر تو جس جمہوریت کی اپنے ہی لوگوں کو مارنے کی خوبصورتی ہے آصف علی زرداری نے امریکی وفد کو آگاہ فرمایا تھا وہ ان کی اپنی خادمہ خاص جمہوریت ہی ہو سکتی ہے۔ ان کی اس خادمہ خاص کو مزید خوبصورت بنانے کے بارے میں ہی سیاسی بات ہو سکتی تھی اور ہوئی ہو گی جس کے حسین مردم خور سے یہ عوام خوفزدہ ہے اور میاں برادران بھی اسے ملک کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دئیے گئے ہیں یعنی آصف علی زرداری اور ان کی خادمہ خاص جمہوریت کی حکمرانی کو۔ اس جمہوریت کو جس کے اسفندیار ولی سے پیر الطاف حسین تک اور حضرت اور مولانا فضل الرحمن تک بہت سے باریش اور بے ریش یار بیلی ہیں اور وہ صبح و شام۔
یاری اے پئی یاری اے ساڈی جمہوریت دے نال یاری اے ...... ساڈی مت ہوس نے ماری اے پر غلامی اساں نوں پیاری اے
کے نغمے گاتے سنے جاتے ہیں بابر بعیش کوش کہ ترجمانی دوبارہ نیست والے صدارتی ترجمان کے بقول ان کے صدر نے امریکی وفد کو بتایا تھا کہ ’’عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ ہر لحاظ سے مثبت اور موثر عمل تھا اور معاشی لحاظ سے قبائلی علاقوں میں جنگ اور عسکریت پسندی کا خاتمہ نہایت ضروری ہے جو بات امریکی بتاتے اور سمجھاتے ہوتے تھے وہ اب آصف علی زرداری انہیں سمجھانے لگے ہیں۔ امریکی فوج کے سربراہ مولن کہتے ہیں کہ پاک فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن کی تیاریاں کر رہی ہے اور جنرل کیانی ان ترجیحات کو جانتے ہیں یعنی وہ ان کی ترجیحات پر عمل کرنے جا رہے ہیں وہ ترجیحات ہیں کیا؟ بقول مولن جی کے وہ ترجیحات ہیں ’’القاعدہ اور طالبان کو اس علاقہ سے اکھاڑ پھینکنا‘‘ وہی چیز جو خود آصف علی زرداری امریکی وفد کو نہایت ہی ضروری بتاتے اور سمجھاتے رہے تھے گویا شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنے اور لوگوں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے ان کی طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی تباہی پاکستان اور اس کے عوام کی اور کھیل اپنا آصف علی زرداری کا مجھے بچائو اور جو چاہو کروا لو کا کھیل اور امریکیوں کا اپنے فوجیوں سے اپنے لوگ اور اپنے لوگوں سے اپنے فوجی مروائو اور ہمیں بچائو کا کھیل لیکن کیا واقعی آصف علی زرداری کی جمہوریت کے حسن میں اضافہ کرنے کے اس نسخہ پر عمل کے لئے جنرل کیانی تیاریاں کر رہے ہیں؟ پاکستان کی قومی ترجیحات سے بے خبر اور بے نیاز ہیں اور زر خور جمہوریت کے عشاق میں شامل ہو چکے ہیں؟ خود امریکی منصوبہ ساز اور نیٹو کمانڈر شمانڈر تو افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں اور ہمیں ان سے لڑ جائو اور مر جائو کے احکام جاری کرنے لگے ہیں اور ہماری وسیلہ روزگار جمہوریت کے دھتورا شاہ خود آگے بڑھ بڑھ کر دست تعاون دراز کر رہے ہیں لیکن کیا پارلیمنٹ کے ارکان اور ان کی پارٹیوں کے مالک و مختار بھی سارے دھتورا پئے ہوئے ہیں؟ بے نظیر کا قتل ظالمانہ تھا لیکن کیا وہ لوگ انسان نہیں جنہیں ڈرون حملوں میں مارا جا رہا ہے اور جنہیں مار دینے کے امریکی اور دھتورا شاہی کے مالک و مختار ضروری مذہبی مذاکرات کر رہے ہیں کیا وہ بچے انسان نہیں جن کے ماں باپ ان حملوں میں مارے جا رہے ہیں؟ ان بچوں کا دکھ دکھ نہیں؟ کیوں نہیں؟ اس لئے کہ ان کے والدین کا کسی بیرونی بنک میں کوئی اکائونٹس نہیں؟ اس لئے کہ ان کے والدین کے خلاف اندرون بیرون ملک مبینہ کرپشن کا کوئی مقدمہ نہیں؟ تو پھر معیار کیا ہے دھتورا شاہی کا عوام اور ان کے بچے مار مار کر اپنی خادمہ کا حسن بڑھانا؟ اس دھتورا شاہی کی محافظ دھتورا پارلیمنٹ نے دو سال پہلے قرارداد پاس کی تھی آزاد خودمختار خارجہ پالیسی بنانے کے لئے اور مبینہ دہشت گردی کی جنگ میں خودکشی کی پالیسی تبدیل کرنے کی اب تو یہ بھی سنتے ہیں کہ بلوچوں کے سردار کی جمہوریت کا حسن بڑھانے کے لئے ان کے شریک کھیل بلوچستان کے اندر حملوں کا بھی منصوبہ بنا رہے ہیں مقامی اور بیرونی شکاریوں نے اپنا نیا جال بلوچستان تک پھیلا دینے پر اتفاق کر لیا ہے؟ دکھتا تو یہی ہے۔