قائد ملت کے قاتل پکڑے جاتے تو کئی سانحات نہ ہوتے

Oct 16, 2012

رانا اعجاز احمد خان ایڈووکیٹ

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم جناب لیاقت علی خان اپنی وزارت عظمیٰ کے چوتھے سال کے آغاز میں قتل کر دیئے گئے۔16 اکتوبر 1951ءکی اس شام کمپنی باغ راولپنڈی میں پیش آنےوالے واقعات کی روشنی میں لیاقت علی خاں کے قتل کو ایک انفرادی جرم قرار دینا ممکن نہیںہے۔ وزیر اعظم پر قاتلانہ حملے کے فوراً بعد کمپنی باغ میں ہونےوالے واقعات پر ان گنت سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ میڈیا میں جو رپورٹ ہوا اسکے مطابق وزیر اعظم کے جلسے میں صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ اور آئی جی پولیس تو موجود تھے مگر پنجاب کے وزیر اعلیٰ ممتاز دولتانہ، آئی جی پولیس قربان علی خاں اور ڈی آئی جی، سی آئی ڈی انور علی غائب تھے۔ درحقیقت جلسہ گاہ میں فرائضِ منصبی پر مامور پولیس کا اعلی ترین عہدیدار راولپنڈی کا ایس پی نجف خاں تھا۔ پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل یوسف خٹک پنڈی میں تھے مگر جلسہ گاہ میں موجود نہیں تھے۔گولی کی آواز سنتے ہی نجف خاں نے پشتو میں چلا کر کہا، ’اسے مارو‘۔ نجف خاں نے پنڈی (پنجاب) کے جلسے میں پنجابی کی بجائے پشتو کیوں استعمال کی؟ ان کے حکم پر سید اکبر کو ہلاک کرنےوالا انسپکٹر محمد شاہ بھی پشتو بولنے والا تھا۔ کیا پولیس کا ضلعی سربراہ اضطراری حالت میں یاد رکھ سکتا ہے کہ اسکے درجنوں ماتحت تھانیدار کون کون سی زبان بولتے ہیں؟ کیا تجربہ کار پولیس افسر نجف خاں کو معلوم نہیں تھا کہ وزیر اعظم پر حملہ کرنے والے کو زندہ گرفتار کرنا ضروری ہے؟۔
لیاقت علی کے صاحبزادے اکبر لیاقت علی کا کہنا ہے کہ سید اکبر کو تو خواہ مخواہ نشانہ بنایا گیا، اصل قاتل کوئی اور تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ لیاقت علی خاں کو گولی سامنے سے نہیں، عقب سے ماری گئی تھی۔ جلسہ گاہ میں موجود مسلم لیگی گارڈ بھالوں سے سید اکبر پر ٹوٹ پڑے۔ اسکے جسم پر بھالوں کے درجنوں زخم تھے۔ اسکا مطلب ہے کہ وزیر اعظم کے آس پاس بہت سے مسلح افراد موجود تھے جس سے ناقص حفاظتی انتظامات کی نشاندہی ہوتی ہے۔نجف خاں کے حکم پر حفاظتی گارڈ نے ہوا میں فائرنگ شروع کر دی جس سے جلسہ گاہ میں افراتفری پھیل گئی اور زخمی وزیراعظم کو طبی امداد پہنچانے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس ہوائی فائرنگ کا مقصد واضح نہیں ہو سکا۔ ایس پی نجف خاں نے انکوائری کمیشن کو بتایا کہ انہوں نے اپنے ماتحتوں کو ہوائی فائرنگ کا حکم نہیں دیا بلکہ ایس پی نے اپنے ماتحتوں سے جواب طلبی کرلی۔
انکوائری کمیشن کے سامنے اس ضمن میں پیش کیا جانےوالا حکم 29 اکتوبر کا تھا۔ تاہم عدالت نے رائے دی کہ ریکارڈ میں تحریف کی گئی تھی۔ اصل تاریخ 20 نومبر کو بدل کر 29 اکتوبر بنایا گیا مگر اسکے نیچے اصل تاریخ 20 نومبر صاف دکھائی دیتی تھی۔ ظاہر ہے کہ نجف خاں نے فائرنگ کا حکم دینے کے الزام کی تردید کا فیصلہ 20 نومبر کو کیا۔ سرکاری کاغذات میں ردوبدل ایس پی نجف خاں کے سازش میں ملوث ہونے یا کم از کم پیشہ وارانہ بددیانتی کا پختہ ثبوت تھا۔ انکوائری کمیشن کےمطابق نجف خاں نے ایک ذمہ دار پولیس افسر کے طور پر اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی تھی۔ اس عدالتی رائے کی روشنی میں نجف خان کےخلاف محکمانہ کارروائی ہوئی لیکن انہیں باعزت بحال کر دیا گیا۔ وزیر اعظم کے جلسے میں ممکنہ ہنگامی صورتحال کیلئے طبی امداد کا کوئی انتظام نہیں تھا حتٰی کہ کسی زخمی کو ہسپتال لے جانے کیلئے ایمبولنس تک موجود نہیں تھی۔
سید اکبر نے زرد رنگ کی شلوار قمیص پر اچکن پہن رکھی تھی۔ یہ خاکسار تحریک کی وردی نہیں تھی۔ واردات کے فوراً بعد یہ افواہ کیسے پھیلی کہ قاتل خاکسار تھا بلکہ صوبہ بھر میں خاکساروں کی گرفتاریاں بھی شروع ہو گئیں۔ کیا یہ عوام کے اشتعال کو کسی خاص سمت موڑنے کی سوچی سمجھی کوشش تھی؟۔خواجہ ناظم الدین نتھیا گلی میں تھے جب کہ غلام محمد پنڈی ہی میں تھے۔ دونوں نے جلسے میں شرکت کی زحمت نہیں کی۔ البتہ وزیر اعظم کے قتل کی خبر پاتے ہی یہ اصحاب صلاح مشورے کیلئے جمع ہو گئے۔ مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں اس وقت پہنچی جب نیم مردہ وزیراعظم کو جلسہ گاہ سے باہر لایا جا رہا تھا۔ وزیراعظم کی موت کی تصدیق ہوتے ہی گورمانی صاحب انکے جسد خاکی کو ہسپتال چھوڑ کر اپنے گھر چلے گئے اور اگلے روز کراچی میں تدفین تک منظرِ عام پر نہیں آئے۔اس سازش کے ڈانڈوں پر غور و فکر کرنےوالوں نے تین اہم کرداروں کی راولپنڈی سے بیک وقت د±وری کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سیکرٹری دفاع سکندر مرزا کراچی میں ٹینس کھیل رہے تھے۔ فوج کے سربراہ ایوب خان لندن کے ہسپتال میں تھے اور سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ ایک خاص مشن پر ہالینڈ میں بیٹھے اگلے احکامات کے منتظر تھے۔
غلام نبی پٹھان (تب جوائنٹ سیکرٹری مسلم لیگ) کے مطابق لیاقت علی کے قتل کی نہ تو ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ تفتیش کی گئی، چالان پیش کیا گیا اور نہ مقدمہ چلایا گیا۔جسٹس منیر اور اختر حسین پر مشتمل ایک جوڈیشل انکوائری ہوئی مگر اس انکوائری کا مقصد لیاقت علی خان کے قاتلوں کا تعین کرنے کی بجائے قتل سے متعلقہ انتظامی غفلت کا جائزہ لینا تھا۔ بیگم لیاقت علی کے مطابق کمیشن کا تقرر حکومت کی دانستہ یا نا دانستہ غلطی تھی۔ اسکے نتیجے میں پنجاب اور سرحد کے پولیس افسر قتل کی تفتیش پر توجہ دینے کی بجائے غفلت کے الزامات کی صفائی پیش کرنے میں مصروف ہوگئے۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے قتل کے محرکات اور سازش آج نصف صدی گزرنے کے باوجود بھی بے نقاب ہو سکی نہ مجرموں کا تعین ہو سکا۔ اگر ایمان داری تفتیش اور تحقیقات ہوتیں ‘ مجرموں کو انجام تک پہنچا دیا جاتا تو قوم جنر ل محمدضیا ءالحق اور بے نظیر بھٹو کے قتل جیسے سانحات سے بچ سکتی تھی۔لیاقت خان کے قتل کو نظر انداز کرنے کا خمیازہ نہ جانے ہمیں کب تک بھگتنا پڑےگا۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایسے سانحات سے بچنے کےلئے ایک FACTS FINDING COMISSIN قائم کیاجا ئے جو ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کرے تاکہ قوم مستقبل کے ممکنہ سانحات سے محفوظ رہے ۔ میرے خیال میں مجوزہ کمشن کی سربراہی کےلئے جسٹس افتخار محمد چودھری سے بہتر شخص مشکل سے ہی کوئی اور ہو۔

مزیدخبریں