منگل ‘ 28 ذیقعد 1433ھ 16 اکتوبر2012 ئ

سابق وفاقی وزیر اور معروف قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ احتساب بل منظور نہ ہوا تو آئندہ حکومت اسے مسترد کر دیگی۔
اس وقت کرپشن ایک عالم گیر مسئلہ ہے لیکن جو کرپشن ہمارے ہاں پنپ رہی ہے ‘ اسکے قانونی تحفظ کیلئے قانون سازی بھی کی جا رہی ہے۔ یہ عجیب منطق ہے کہ پانچ کروڑ سے کم کے غبن کو کرپشن ہی نہیں مانا جائیگا اور اسے غلطی تسلیم کیا جائیگا۔
پنجابی کی ایک کہاوت ہے ”ککھ دی وی چوری‘ تے لکھ دی وی چوری“ یعنی چاہے تنکا چرایا جائے یا ایک لاکھ روپیہ ‘ چوری دونوں کی ہوتی ہے‘ لیکن ہماری حکومت کی نظر میں پانچ کروڑ کی کوئی وقعت ہی نہیں‘ جسے وہ کرپشن کے زمرے میں نہیںلانا چاہتی۔ اسکی پوری کوشش ہے کہ موجودہ اسمبلی ختم ہونے سے پہلے احتساب بل منظور کرالیا جائے تاکہ جس نے اتنی بڑی رقم کی کرپشن کی ہے‘ کم از کم اسے احتساب سے بچایا جا سکے۔ رہے بے چارے عوام تو وہ پچھلے کئی سال سے حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ برداشت کر رہے ہیں۔ چلیں پانچ کروڑ کو گولی مارےں‘ کم از کم اس رقم کا تو کچھ کیا جائے جو ”لانڈری“ میں پڑی ہے۔
٭....٭....٭....٭
خبر ہے کہ بیجنگ میں زہریلی کھمبیاں کھانے سے ایک ہی گھر کے چھ افراد ہلاک۔
چینی واحد قوم ہے جو دنیا کی ہر چیز انّے وا کھاتی ہے۔ وہ زمین میں چلنے پھرنے‘ رینگنے والے تمام حشرات سوائے گاڑیوں کے‘ سمندر کی تمام مخلوق سوائے بحری جہاز اور کشتی کے‘ ہوا میں اڑنے والے تمام پرندے‘ سوائے سیارے اور ہوائی جہاز کے ہڑپ کرجاتی ہے۔ انسانیت بالخصوص چینی دوستی کے ناتے ہمیں ان چھ افراد کی ہلاکت کا دلی افسوس ہے۔ کھمبیاں ہمارے ہاں بھی پائی اور کھائی جاتی ہیں‘ لیکن تمام کھمبیاں کھانے والی نہیں ہوتی‘ چینی قوم کا یہی تو ایک المیہ ہے کہ کھا جاﺅ‘ جو ہو گا بعد میں دیکھا جائیگا‘ چاہے اس کا نتیجہ دنیا سے رخصتی کی صورت میں ہی کیوں نہ نکلے۔
٭....٭....٭....٭
نارروال میں دو منہ والے میمنے کا جنم‘ دونوں منہ سے دودھ پیتا ہے۔
دو منہ والے میمنے کا جنم کوئی اچنبھے کی بات نہیں‘ پہلے بھی ایسے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں‘ یہ تو بے چارہ میمنہ ہے ‘ ہمارے ہاں تو منہ ایک اور زبانیں دو ہونا تو عام بات ہے۔ عوامی سطح پر تو سروے بہت مشکل ہے‘ البتہ حکومتی سطح پر اس کا ثبوت عموماً ملتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں کسی بات کو حرفِ آخر نہیں کہا جاتا۔ ایک معروف سیاست دان جب بولتے ہیں تو لگتا ہے صرف جھاڑ رہے ہیں‘ یہ اندازہ لگانا سننے والوں کا کام ہے کہ وہ کیا جھاڑ رہے ہیں‘ جبکہ ایک اداکارہ کی انگلش ایسی رواں ہے جس میں کہیں فل سٹاپ نہیں پایا جاتا۔ انکے سامنے انگریز بھی بولتے ہوئے گھبراتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭
لاہور میں تجاوزات کی وجہ سے شہر میں ٹریفک کا جام ہونا معمول ہوتا جا رہا ہے۔ تجاوزات کرنیوالے شاید لاہور کا کشادہ دل دیکھتے ہوئے اس میں تجاوزات کرتے چلے جا رہے ہیں۔ لاہور شہر میں تجاوزات اکثر چلتی پھرتی ہیں اور اسی شوق آوارگی میں وہ اپنا کاروبار بھی کرلیتی ہیں۔ فٹ پاتھوں کا یہ حال ہے کہ وہ ہر چند کہیں کہ ہیں ‘ نہیں ہیں۔
شہر کا کوئی بھی شعبہ لے لیں‘ تجاوزات ہی تجاوزات دکھائی دیں گی‘ خادم اعلیٰ سڑکیں کشادہ کرنے میں مصروف ہیں جبکہ تجاوزات کرنےوالے انہیں سکیڑنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ سڑکوں پر ریڑھی والوں کی بہتات نظر آتی ہے۔ مگر وہ بھی کیا کریں‘ اگر انکی ریڑھیوں کو ہٹا دیا جائےگا تو ان کو متبادل روز گار کون دےگا؟ یہ تو حکومت کا کام ہے کہ جہاں سے تجاوزات ہٹائے‘ ان کو مناسب روزگار بھی دے۔ موجودہ دور میں صرف تجاوزات ہی میں ترقی نہیں ہوئی کرپشن ‘ چور بازاری‘ اقربا پروری اور نہ جانے کس کس معاملہ میں ہم ترقی یافتہ ہو چکے ہیںاگر نہیں ہوئے تو سنجیدگی میں نہیں ہوئے۔
٭....٭....٭....٭
 تین لاکھ لاہوری صارفین پانی چور نکلے‘ واسا کو کروڑوں کا ٹیکہ۔
 حکومت آئے روز عوام کو ٹیکے لگاتی رہتی ہے۔ کبھی پٹرول ٹیکہ‘ کبھی سی این جی ٹیکہ اور کبھی بجلی کا جھٹکا۔ اگر لاہوریوں نے حکومت کے ایک محکمے کو تھوڑا سا ٹیکہ لگا دیا‘ وہ بھی پانی کا ‘تو کونسی قیامت آگئی۔ لاہوریوں کا یہ”انتقامی عمل“ حکومت کیخلاف مکافات عمل کو ہی ظاہر کرتا ہے۔ حکومت کی من مانیوں اور لوٹ کھسوٹ کی خواہش نے ان لوگوں کو بھی پانی بجلی اور گیس چوری پر مجبور کر دیا ہے جو ایمانداری سے بل ادا کرنے کی سکت سے محروم کر دیئے گئے ہیں۔
سالانہ بجٹ تو برائے نام رہ گیا ہے‘ اب تو ہر دوسرے تیسرے دن چھوٹے چھوٹے بجٹ آتے رہتے ہیں‘ جبکہ منی بجٹ میں موجودہ حکومت کا ملکی تاریخ میں کوئی ثانی نہیں۔ ہفتہ وار ”پٹرول بجٹ“ بھی موجودہ حکومت کی پیداوار ہے۔ کرائے بڑھ جاتے ہیں‘ ضرورت کی ہر چیز مہنگی کردی جاتی ہے جس کی وجہ سے عام آدمی اس قدر مفلسی میں چلا گیا کہ اسکے گھر میں فاقوں تک کی نوبت آگئی ہے۔
 ادھر مہینہ شروع ہوتا ہے‘ اُدھر گھر کا سربراہ ڈھیلا ڈھیلا نظر آنے لگتا ہے کیونکہ اس کا بلڈ پریشر لو ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ کسی وقت بھی کوئی یوٹیلٹی بل آجائیگا اور پھر ....
بلوں کے آنے سے جو آتا ہے پیشانی پہ پسینہ
ڈوب جاتا ہے بے چارے سربراہ کا سفینہ
آئے روز بلوں میں ناجائز اضافہ کردیا جاتا ہے‘ کبھی فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر‘ کبھی لیوی لگا دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم اس قدر مجبور ہو گئی ہے کہ وہ آج اقبال کے اس شعر پر اس طرح عمل پیرا ہے....
محبت مجھے ان نوجوانوں سے ہے
جو ڈالتے ہیں ” تاروں“ پہ ”گاٹیاں“

ای پیپر دی نیشن