مفتی ¿اعظم سعودی عرب الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل شیخ نے کہا ہے کہ اسلام نے امن کی تعلیم دی ہے‘ اسلام دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا‘ انسان کا ناحق خون بہانے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اسلام دنیا بھر میں ہونیوالی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔ مسلمانوں کو امن پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ آج امت بہت مشکل دور سے گزر رہی ہے‘ مسلم ممالک کے سربراہان عوام کی خیرخواہی کریں‘ ان کیلئے آسانیاں پیدا کریں اور عوام کی مشکلات حل کرنے کے اقدامات کریں۔ پیر کے روز مسجد نمرہ میں خطبہ¿ حج دیتے ہوئے مفتی ¿اعظم سعودی عرب نے مسلم امہ کو درپیش مسائل اور اس میں موجود کمزوریوں کا بھی مفصل تذکرہ کیا اور اس امر پر زور دیا کہ مسلمان ذلت اور پستی سے نکلنا چاہتے ہیں تو دین کو مضبوطی سے تھام لیں۔ مسلمانوں میں اختلافات کا خاتمہ ناگزیر ہے‘ ہر قسم کی فرقہ واریت کو ختم کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے اقتصادی نظام کو اپنایا جائے تو دنیا سے معاشی بحران ختم ہو جائینگے۔ مسلمان باطنی برائیوں سے بچیں کیونکہ ان برائیوں کی وجہ سے انسان اللہ کی بارگاہ سے دور ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے امن کی تعلیم دی‘ اسلام امن پسند مذہب ہے اور امن کی بات کرتا ہے۔ مسلمان اپنی قوت کو پارہ پارہ نہ ہونے دیں۔
مفتی ¿ اعظم سعودی عرب الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ نے جس خشوع و خضوع‘ عاجزی‘ دردمندی اور ایمان و ایقان کی پختگی کے ساتھ مسجد نمرہ میں خطبہ¿ حج دیا وہ مسلم امہ کو ہر قسم کے فروعی مذہبی اور گروہی اختلافات کو فراموش کرکے اتحاد و یکجہتی کی لڑی میں پروئے رکھنے کا نسخہ¿ کیمیا ہے۔ مفتی اعظم سعودی عرب نے جہاںآزادی اظہار کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے کی روش سے باہر نکلنے‘ شرفِ انسانیت کے منبع دین اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے اور ریاستی‘ ملکی‘ مملکتی فرائض سرانجام دینے کی تلقین کی‘ وہیں انہوں نے مفاہمتوں‘ مصلحتوں کے لبادے اوڑھے مسلم حکمرانوں کو ریاکاری ترک کرکے شعائر اسلامی اختیار کرنے کا بھی درس دیا۔ اس لحاظ سے مفتی¿ اعظم سعودی عرب کا خطبہ¿ حج مسلم امہ اور اسکے فرمانرواﺅں کو سیدھی راہ پر چلانے کا منشور بھی ہے جسے ہر مسلمان اپنی زندگی پر نافذ کرکے اقوام عالم میں اسلام کی نشاة ثانیہ کے احیاءکی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ اس حوالے سے مفتی¿ اعظم سعودی عرب نے بجا طور پر تلقین کی کہ اسلام کے اقتصادی نظام کو اپنایا جائے تو دنیا سے تمام معاشی بحران ختم ہو جائیں۔ مفتی ¿ اعظم سعودی عرب کا یہ ارشاد فکر انگیز ہے کہ مسلم امہ کے تمام وسائل کو جمع کرلیا جائے تو اسے درپیش تمام مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے جبکہ معاشی اور اقتصادی مسائل کا حل بھی مسلمان مل کر نکال سکتے ہیں۔ مفتی¿ اعظم سعودی عرب نے رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اسلام کے امن و آشتی کے فلسفہ کے عین مطابق عالمی برادری کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسلام میں جبر اور سختی نہیں‘ پیار اور محبت ہے جبکہ دنیا میں شر کا غلبہ ہے۔ اگر وہ اپنے خطبہ¿ حج میں یہ باور کرا رہے ہیں کہ دہشت گردی اور انسان کا ناحق خون بہانے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تو اس سے درحقیقت وہ دین اسلام کے انتہاءپسند ہونے کا پروپیگنڈہ کرنیوالوں پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمان دہشت گردی سے نفرت کرتاہے اور ظالموں کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آج نماز عید الاضحی کے موقع پر اسلامیانِ پاکستان ملک کی ترقی و سلامتی اور اتحاد ِ امت کی دعائیں مانگتے ہوئے مفتی¿ اعظم سعودی عرب کے خطبہ¿ حج کے بنیادی نکات کو بھی اپنے پیش نظر رکھیں اور ان نکات کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کا عہد کرکے اس پر عمل پیرا بھی ہو جائیں تو بلاشبہ اتحاد امت ہی دنیا کی سپرپاور بن سکتا ہے۔
مفتی ¿ اعظم سعودی عرب کے ارشادات کی روشنی میں آج بحیثیت قوم ہمیں سوچنا چاہیے کہ رحمت اللعالمین بنا کر بھیجے گئے بنی¿ آخرالزمان کے دین کا اقوام عالم اور دیگر مذاہب میں تشخص خراب کرنے میں کہیں ہماری اپنی بداعمالیوں کا ہی تو عمل دخل نہیں؟ اگر فرقوں میں بٹے مسلمان فروعی اختلافات کو ہوا دیتے اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کے گلے کاٹ رہے ہوں اور اپنی انتہاءپسندانہ سوچ کو دین اسلام کے ساتھ منسلک کرکے مساجد کو نمازیوں سمیت بم دھماکوں سے اڑا رہے ہوں‘ درگاہوں‘ خانقاہوں میں بھی دھماکے کرکے اپنی جنونیت کو حاوی کر رہے ہوں۔ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو بھی اپنی انتہاءپسندانہ سوچ کی بھینٹ چڑھا رہے ہوں‘ ملک کی سرحدوں اور امن و امان کی ضامن سکیورٹی فورسز کو ہدف بنا کر اپنے مشن کی کامیابی کا پیغام دے رہے ہوں اور گلیوں‘ بازاروں‘ چوراہوں میں بے گناہ انسانوں کا قتل عام کرکے انسانی خون کی ارزانی کی فضا بنا رہے ہوں تو دوسری اقوام اور دوسرے مذاہب کو دین اسلام کے حوالے سے منفی پروپیگنڈہ کرنے کا کیوں موقع نہیں ملے گا۔ گزشتہ دس بارہ سال کے دوران برصغیر‘ وسطی ایشیائ‘ مشرق وسطیٰ اور خطہ¿ عرب میں موجود مسلم ریاستوں میں دین اسلام کے ساختہ انتہاءپسندانہ تصور کے تحت جس سرعت کے ساتھ فرقہ ورانہ تعصبات اور فروعی اختلافات کی بنیاد پر فتنہ و فساد‘ بدامنی‘ لاقانونیت اور ریاست کے اندر ریاست کے تصور کو فروغ حاصل ہوا ہے جس میں اسلام اور مسلم دشمن قوتوں کو بھی دین اسلام پر غلبہ پا کر اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کا موقع ملا۔ وہ سب ہمارا اپنا ہی تو کیا دھرا ہے۔ اس حوالے سے ملک خداداد پاکستان کی حالت تو انتہائی ناگفتہ بہ ہے‘ جہاں فرقہ واریت میں الجھے مسلمانوں نے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ امریکہ کے علاوہ ہمارے پڑوسیوں بھارت اور افغانستان کو بھی ہماری ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا چنانچہ یہ ارض وطن ڈرون حملوں سے بھی انسانی خون سے رنگین ہوئی ہے اور بھارت و افغانستان سے آنیوالے تربیت یافتہ دہشت گردوں نے بھی ہماری سرزمین پر آکر اپنی خون کی پیاس بجھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیا۔ اگر ہم اسلام کے رواداری اور امن آشتی کے پیغام کی بنیاد پر بطور قوم اتحاد و یکجہتی کی لڑی میں پروئے جائیں اور اسلامی تعلیمات پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہوں تو ہمارا دین اسلام ہی انسانی فلاح اور ریاستی امن و استحکام کا ضامن ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں مسلم ممالک ہر قسم کے وسائل اور قدرتی خزانوں سے مالامال ہیں‘ جنہیں بروئے کار لا کر اس دھرتی کو اپنے لئے جنت نظیر بنایا جا سکتا ہے۔ عرب ریاستوں اور ایران و عراق کو قدرت نے تیل کے ذخائر سے معمور کر رکھا ہے۔ پاکستان کی دھرتی بھی اس قدرتی ذخیرے سے مالا مال ہے۔ صرف خلوص نیت کے ساتھ کھوج لگانے کی ضرورت ہے جبکہ افغانستان کے علاوہ ہماری سرزمین بھی قیمتی دھاتوں کے خزانے اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ قدرتی گیس بھی ہمارا خاصہ ہے اور اس خطہ میں موجود پانی کے ذخائر بھی ہماری دسترس میں ہیں مگر یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں نے اپنی اپنی دھرتی پر موجود قدرت کے خزانوں اور وسائل کو مسلم امہ کی فلاح و ترقی کیلئے استعمال کرنے کا کبھی سوچا ہی نہیں جبکہ ہمارے انہی وسائل کے بل بوتے پر ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہوئے اور پھر دنیا پر غالب آنے کی راہ پر گامزن ہو گئے جبکہ امتِ واحدہ نے فرقوں‘ گروہوں میں تقسیم ہو کر اور فروعی اختلافات میں الجھ کر اتحادِ امت کو انتشار و افتراق میں تبدیل کر دیا اور آج صورتحال اس نہج تک جا پہنچی ہے کہ ہماری معیشتیں برباد ہو چکی ہیں چنانچہ ہم نہ ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہیں اور نہ ہی دنیا میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔مفتی ¿ اعظم سعودی عرب نے اسی تناظر میں مسلم ممالک کے حکمرانوں کو تلقین کی ہے کہ وہ اپنے عوام کیلئے آسانیاں پیدا کریں۔ بانیانِ پاکستان قائد و اقبال کے تصورات کے تحت تو پاکستان کا قیام ہی جدید اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی معاشرے کی تشکیل کیلئے عمل میں لایا گیا تھا مگر یہاں کے حکمرانوں نے اپنے من مانے ایجنڈے پر گامزن ہو کر اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کی تشکیل کا خواب تو کیا شرمندہ¿ تعبیر کرنا تھا‘ عوام کو گھمبیر اقتصادی اور معاشی مسائل میں الجھا کر‘ مہنگائی کی انتہاءکرکے اور روزگار کے دروازے بند کرکے انہیں عملاً زندہ درگور کر دیا ہے۔ انہی اقتصادی مسائل کے نتیجہ میں سادہ لوح مسلمان اپنے خاندانوں کے روٹی روزگار کے بندوبست کی خاطر انتہاءپسندی کا مخصوص ایجنڈہ رکھنے والے عناصر کے ہتھے چڑھ کر انکے جنونی مقاصد کی بھٹی کا ایندھن بنتے اور دہشت گردی کی وارداتوں میں اپنے کلمہ گو بھائیوں کے جسموں کے پرخچے اڑاتے ہیں۔ اس تناظر میں مفتی ¿ اعظم سعودی عرب کا خطبہ¿ حج ہمہ جہت ہے جس میں فرقہ بندیوں میں بٹی مسلم امہ کو اتحاد و یکجہتی کی لڑی میں پرونے کا راستہ بھی دکھایا گیا ہے۔ امن و آشتی پر مبنی اسلام کے اصل فلسفے کو بھی اجاگر کیا گیا ہے اور مسلم امہ کے اقتصادی مسائل کے حل کے تمام ممکنہ اقدامات بھی تجویز کر دیئے گئے ہیں اگر مفتی ¿ اعظم سعودی عرب کے چشم کشا خطبہ¿ حج کو حرزجاں بنا کر حضرت نبی کریم کے امتی کی حیثیت سے دنیا میں اخوت و محبت کا پیغام پھیلایا جائے اور اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کیمطابق گزارنے کا عملی نمونہ بنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسلام کی نشاة ثانیہ کا احیاءکرکے دنیا میں پھر سرخرو نہ ہوں۔