عید سے قبل گارڈین کورٹس میں بچوں اور والدین کی ملاقاتیں، ماحول سوگوار

لاہور (رپورٹ: ایف ایچ شہزاد) عیدالاضحی سے پہلے گارڈین کورٹس کا ماحول سوگواررہا۔ باہمی جھگڑوں کے باعث والدین میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنے والے بچے حسرت و یاس کی تصویر بنے نظر آئے۔ رواں سال بھی عدالتی حکم پر بچوں سے ملاقاتوں میں والدین بچوں کو نئے کپڑوں، کھلونوں، کھانے پینے کی اشیاءاور نقد پیسوں کی صورت میں بہلانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ بچوں کی اکثریت کا تقاضا یہی رہا کہ والدین باہمی صلح کرکے انکو انمول عیدی دیں۔ گارڈین کورٹس میں عیدالاضحی سے دس روز قبل بچوں کے ساتھ والدین کی خصوصی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ عدالتوں میں آنے والے بچے تحفوں سے بیزار کسی ایسے معجزے کے متلاشی نظر آتے ہیں جو کائنات میں انکے سب سے قیمتی رشتوں میں صلح کروا دے۔ لاہور کی گارڈین کورٹس میں بچوں کی گارڈین شپ کے بارہ سو سے زائد مقدمات زیر التواءہیں۔بچوں اور والدین کی ملاقاتوں میں غمگین، کربناک اور تکلیف دہ مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ ایسے بچوں کی شخصیت میں اعتماد اور زندگی میں خوشیوں کی واضح کمی نظر آتی ہے۔ والدین کی کھوکھلی ہنسی اور مصنوعی اپنائیت بچوں کو مزید پریشان کردیتی ہے۔ عدالتوں کے در و دیوار معصوم سسکیوں، خاموش چیخوں اور گہری اداسیوں کے شاہد ہیں۔ معصوم چہروں پر چھائی اداسی والدین کو بھی یہ سوچنے اور کہنے پر مجبور کردیتی ہے کہ کاش وہ اپنی ضد اور جھوٹی انا کے لئے جھگڑوں سے گریز کرلیتے تو ان کے بچوں کی زندگی خوشیوں سے بھری ہوتی۔ بیشتر والدین نے باہمی جھگڑوں کی وجہ دوسرے فریق کو قرار دیا تاہم کچھ لوگوں کا ماننا تھا کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ سائلین کا کہنا تھا کہ ان والدین کو اپنے بچوں کی خاطر اب بھی صلح کرلینی چاہئے۔ فاضل جج، وکلاءاور عام لوگوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ عائلی مقدمات میں بچوں کی زندگیوں کو متاثر ہونے سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ مصالحتی نظام کا بہتر بنایا جائے۔ ایک فاضل جج کا کہنا تھا کہ مروجہ قوانین سے ہٹ کر بھی وہ بچوں کی گارڈین شپ کے مقدمات میں فریقین کو صلح کیلئے پوری مہلت دیتے ہیں تاکہ خاندانوں میں بچوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ جائے۔ وکلاءکا کہنا ہے کہ وہ اپنے پروفیشن سے چند لمحوں کیلئے ہٹ کر ایک عام انسان کی حیثیت سے فریقین میں صلح کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن