آج عید قربان ہے۔ ہم صرف بکرے گائے وغیرہ کی قربانی کرتے ہیں۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ قربانی ہے کیا؟ مرغی ذبح کر کے غریبوں کو کھلاﺅ تو یہ بھی قربانی ہے مگر حمزہ شہباز کے کاروبار نے مرغی بھی مہنگی کر دی ہے۔ کون ہے جو کاروبار کو قربانی بنا دے؟ ایک دن پہلے حج ہوتا ہے۔ اتنا بڑا اجتماع دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ حج کے حوالے سے کسی نے غور نہیں کیا۔ اتحاد بین المسلمین کا اتنا بڑا مظاہرہ ہوتا ہے اور ہمیں پھر ایسے مظاہر کہیں نظر نہیں آتے۔ سب لوگ امام کعبہ کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں اور کسی نے نہیں سوچا کہ یہ سُنی ہے شیعہ ہے وہابی بریلوی یا کیا ہے۔ سوائے اس کے کہ حج کرنے والے آدمی کے نام کے ساتھ حاجی کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ کسی آدمی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ہم حکمرانوں کے لئے تو چاہتے ہیں کہ تبدیلی آنا چاہئے۔ حاکم بھی وہی ہیں اور محکوم بھی وہی ہیں۔
امام کعبہ نے فرمایا کہ دہشت گردی اسلام میں حرام ہے۔ مگر جہاں دہشت گردی ہوتی ہے۔ تو الزام کسی مسلمان کے سر آتا ہے۔ دہشت گردی صرف مسلمان ملکوں میں ہو رہی ہے اور اس کا فائدہ دوسرے اٹھا رہے ہیں۔ بم دھماکے صرف مسلمانوں کے ہاں ہوتے ہیں اور دھمکیاں بھی مسلمانوں کو ملتی ہیں۔ یہ تو کہا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف سازش ہے تو اس سازش کا شکار لوگ سوچتے ہیں کہ اس سازش میں شریک تو مسلمان ہیں۔ کبھی کوئی امریکی یا فرانسیسی خودکش بمبار نہیں ہوتا۔ وہ ہوتا تو مسلمان ہی ہے۔ ہم سازش میں مبتلا ہونے کے لئے سب سے آسان مخلوق کیوں ہو گئے ہیں۔
غداروں کی فہرست میں سب سے زیادہ نام مسلمانوں کے ہیں۔ اپنے ملک کے خلاف استعمال ہونے والے مسلمان ہیں۔ مسلمان ملکوں کے حکام ہی دوسروں کے مفادات کے مطابق کام کرتے ہیں۔ ہم نے کبھی غور کیا کہ دنیا میں سب سے بڑا اجتماع حج کے موقعے پر ہوتا ہے۔ کیا ہم نے اس سے کوئی اجتماعی فائدہ اٹھایا ہے؟ عبادات کو رسومات بنا کے رکھ دیا گیا ہے۔
قربانی کے لئے تہوار کسی قوم کسی مذہب میں نہیں ہے۔ ہم رمضان کے مہینے میں کیا کرتے ہیں؟ چیزوں کو مہنگا کرنے اور لوٹ مار کے سوا ہمارا کوئی پروگرام نہیں ہوتا۔ روزوں کے مہینے میں کمائی کرنے کے بعد ہمارے لوگ حج کرنے چلے جاتے ہیں اور زندگی میں کئی کئی حج کرتے ہیں۔ جبکہ آقا و مولا رحمت اللعالمین رسول کریم حضرت محمد نے زندگی میں صرف ایک حج کیا تھا۔
حاجی صاحبان شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں۔ اب تک جتنی کنکریاں شیطان کو لگ چکی ہیں تو اُسے فنا ہو جانا چاہئے تھا مگر کنکریاں کھانے کے بعد انسانوں کے اندر وہ زیادہ زور شور سے اپنا کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ شیطان کو کنکریاں مارنا ایک علامت ہے۔ یہ تو اپنے اندر کے شیطان کے خلاف ایک اعلان جنگ ہے۔ اس جنگ میں ہمارا کردار کیا ہے۔
شیطان ایک حاجی صاحب کو جانتا تھا وہ 25 حج کر چکا تھا۔ ہر بار بڑے زور سے کنکریاں مارتا تھا۔ شیطان نے تنگ آ کے اُسے کہہ دیا کہ یار تمہیں تو حق نہیں ہے کہ تم مجھے کنکریاں مارو۔ تمہیں تو یہاں میرے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ یہ آواز کسی نے نہ سُنی مگر مجھے یقین ہے کہ اس شخص نے ضرور سُنی ہو گی۔ اُسے کوئی احساس نہیں ہوا ہو گا۔ وہ اگلے سال پھر حج کرنے پہنچا ہوا ہو گا۔ شیطان کو سنگسار کرنا تو ممکن نہیں۔ جب تک ہم اپنے اندر کے شیطان کو بھی سنگسار نہیں کر لیتے تو پانچ سال کی معصوم بچیوں سے زیادتیاں کرنے والے شیطان کو کنکریاں ماریں گے تو کیا ہو جائے گا۔
کسی آدمی کے محلے میں کوئی بھوکا آدمی ہو تو اسے کیا کرنا چاہئے۔
دل بدست آور کہ حج اکبر است
کسی کی دلجوئی کرو۔ یہ حج اکبر ہے۔ ہم کیوں نہیں سوچتے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ حج بھی قربانی ہے مگر ہمیں معلوم نہیں کہ قربانی کیا ہے؟ ہم ظاہری طور پر عبادات میں سرگرمی دکھاتے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے مگر اس عبادت کے بعد دل میں کوئی تبدیلی آنی چاہئے۔ یہ سوچنا بھی عبادت ہے۔
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں، تو باقی نہیں ہے
بہت لوگ پریشان ہیں۔ ان میں بکرا خریدنے کی طاقت نہیں ہے۔ مذاق مذاق میں کسی نے کہہ دیا کہ اب تو مرغی کی قربانی جائز ہو جانا چاہئے۔ غریبوں کا بھی جی چاہتا ہے کہ وہ قربانی کریں۔ انہیں قربانی کا بکرا بنا دیا گیا ہے۔ مرغی کی بات نہ کریں کہ اجماع امت جس بات پر ہو جائے وہ ٹھیک ہے۔ مرغی بھی کم مہنگی نہیں ہے۔