اسلام آباد (سپیشل رپورٹ + آئی این پی + اے پی اے + بی بی سی) پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے بھارت اور افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی‘ پاکستان میں کالعدم تنظیموں کو بھارت اور افغانستان سے مالی اور دیگر امداد پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے پاکستان اپنے اندرونی معاملات میں کسی بیرونی قوت کی مداخلت برداشت نہیں کرے گا ‘ وزیراعظم نوازشریف دورہ امریکہ میں امریکی قیادت سے ان معاملات پر کھل کر بات کریں۔ وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت منگل کو وزیراعظم ہائوس میں قومی سلامتی پر منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے۔ آئی این پی کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم کے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز‘ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان‘ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی‘ سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی‘ وزیراعظم کے خارجہ امور کے معاون خصوصی طارق فاطمی اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے قبل ہونے والے اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں دورہ امریکہ کے ایجنڈا‘ اندرونی اور بیرونی حالات‘ طالبان سے مذاکرات کی حکمت عملی پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز نے اجلاس کو امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان و پاکستان جیمز ڈوبنز کے دورہ پاکستان اور ان سے ملاقات کی تفصیلی رپورٹ پیش کی۔ ذرائع کے مطابق سرتاج عزیز نے اجلاس کو بتایا امریکی نمائندہ کو وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے ایجنڈے اور خطہ میں امریکی پالیسیوں پر پاکستان کے تحفظات سے کھل کر آگاہ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف 20 اکتوبر کو دورہ امریکہ پر روانہ ہونگے اور 23 اکتوبر کو امریکی صدر بارک اوباما سے اہم ملاقات کریں گے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں ملکی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ سیاسی اور عسکری قیادت نے افغانستان اور بھارت کی طرف سے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات‘ دونوں ممالک سے پاکستان میں ہونے والی مداخلت اور دہشت گردی اور کنٹرول لائن کی بھارت کی طرف سے مسلسل خلاف ورزیوں کا بھی جائزہ لیا۔ ذرائع نے بتایا سیاسی اور عسکری قیادت نے پاکستان کے اس عزم کا اعادہ کیا نہ تو ہم کسی کے معاملات میں مداخلت کریں گے اور نہ ہی کسی اور کو پاکستان کے معاملات میں مداخلت کرنے دی جائے گی۔ اجلا س میں واضح کیا گیا کسی قوت نے پاکستان پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی تو اس کو منہ توڑ جواب دیا جائیگا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا امریکی حکومت پر واضح کیا جائے گا، امریکہ نے بھارت کو خطہ میں ’’تھانیدار‘‘ بنانے کی کوئی کوشش کی تو پاکستان اسے بالکل قبول نہیں کرے گا اور ایسی کوشش دونوں ممالک کے قریبی تعلقات کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں افغانستان اور امریکہ کے مجوزہ دوطرفہ سکیورٹی معاہدہ پر بھی غور کیا گیا جس کے تحت افغان حکومت کسی بھی دہشت گرد حملے کا پاکستان پر الزام لگا کر امر یکہ سے پاکستان کے اندر کارروائی کیلئے مدد مانگ سکتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا پاکستان کسی ایسے معاہدے کو تسلیم نہیں کرے گا اور کسی ایسے معاہدے کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی کوشش کی گئی تو پاکستان اپنے خلاف اعلان جنگ تصور کرے گا۔ ذرائع کے مطابق عسکری حکام نے وزیراعظم اور اجلاس کو بتایا افغان انٹیلی جنس نہ صرف پاکستان بالخصوص بلوچستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہے بلکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر کالعدم تنظیموں کو مالی مدد بھی فراہم کر رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس کو بتایا گیا کہ تحریک طالبان پاکستان کے نائب امیر اور حکیم اللہ محسود کے بھائی لطیف محسود کو امریکی فوج نے افغان انٹیلی جنس سے مالی امداد لے کر واپس آتے ہوئے سرحد پر گرفتار کیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں افغان انٹیلی جنس کی کارروائیوں کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے یہ معاملہ افغانستان میں اعلیٰ سطح پر اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا وزیراعظم امریکی صدر سے اپنی ملاقات میں بھارت اور افغانستان کی پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کا معاملہ زوردار طریقے سے اٹھا کر واضح کریں گے دہشت گردی کے مرکز پاکستان میں نہیں بھارت اور افغانستان میں ہیں۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر بھی غور کیا گیا۔ آرمی چیف نے اجلاس کو پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی بات چیت سے آگاہ کیا۔ آرمی چیف نے اجلاس کو بتایا مسلح افواج مادر وطن کا دفاع کرنے کیلئے کسی بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ملکی دفاع کیلئے مسلح افواج کی تمام ضروریات کو پورا کیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا وزیراعظم افغانستان سے اگلے سال امریکی افواج کے انخلا کیلئے پاکستان کی طرف سے فراہم کئے جانے والے تعاون کے نتیجے میں پاکستان کے انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے اربوں ڈالر کے شدید نقصان سے آگاہ کر کے اس کی تلافی کا مطالبہ کریں گے۔ اے پی اے کے مطابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی ملاقات کے دوران ملکی سلامتی اور طالبان سے مذاکرات سے متعلق امور پر بات چیت کی گئی اور تمام ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات اور پاکستانی سرزمین کو کسی دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ آرمی چیف جنرل کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کی۔ ملاقات میں فیصلہ کیا گیا پاک فوج کے نئے سربراہ اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا فیصلہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے 21 اکتوبر سے شروع ہونے والے دورہ امریکہ کے بعد کیا جائیگا‘ اس تاخیر کا مقصد امریکی حکام سے تفصیلی صلاح مشورہ کرنا اور انہیں اعتماد میں لینا ہے جس کے لئے امریکی حکام سے بھی رابطے جاری ہیں اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ ان عہدوں کیلئے مجوزہ ناموں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شروع کر دی گئی ہیں جن پر مزید بات چیت وزیراعظم کے دورہ امریکہ میں ہونے کا امکان ہے۔ ملاقات میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات پر مشاورت کی گئی۔ سیاسی اور عسکری قیادت نے مذاکرات کیلئے کوئی شرط عائد نہ کرنے کے تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے بیان کو مثبت پیش رفت قرار دیا۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں طے پایا وزیراعظم اپنے دورہ کے دوران امریکی قیادت سے بھارت کی طرز پر پاکستان سے سول نیوکلیئر معاہدے‘ ڈرون حملوں کی بندش‘ اگلے سال افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد کی صورتحال‘ خطہ کے معاملات میں پاکستان کے کلیدی کردار‘ طالبان سے مذاکرات سمیت دیگر امور پر کھل کر بات کریں گے۔ بی بی سی کے مطابق اجلاس کی کارروائی کے حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بتایا وزیراعظم نوازشریف اہم غیر ملکی دورے پر روانہ ہونے والے ہیں اور ملک کی صورتحال پر وزیراعظم کو اپنا نکتہ نظر بیان کیا ہے۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بتایا اجلاس میں اندرون ملک سکیورٹی سے متعلق وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی۔ انہوں نے کہا حکومت اندرون ملک سکیورٹی کی صورتحال کو بات چیت کے ذریعے بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس سلسلے میں کوششیں جاری ہیں۔ وزیر اطلاعات نے شدت پسندوں سے مذاکرات کے حوالے سے کہا مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لئے ایک ماحول پیدا کرنا اور شدت پسندوں کی بہت سے گروہوں سے رابطے کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا مذاکرات کے مراحل کے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ وزیر اطلاعات نے حکیم اللہ محسود کے بیان پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ابرار سعید / نیشن رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں کے منفی تاثر کے حوالے سے سیاسی اور فوجی قیادت کا یکساں موقف تھا اور فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم ڈرون حملوں کی بندش کا معاملہ امریکی صدر اوباما کے ساتھ پوری قوت سے اٹھائیں۔ ملاقات کے دوران یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردوں اور شدت پسندوں کیخلاف کراچی آپریشن جاری رہے گا اور اس حوالے سے کوئی دباؤ برداشت نہیں کیا جائیگا۔ وزیر داخلہ نے افغان انٹیلی جنس کی دہشت گردی میں ملوث ہونے کے حوالے سے اجلاس کو بریفنگ دی اور فیصلہ کیا گیا کہ اس حوالے سے مزید شواہد اکٹھے کر کے معاملہ افغان صدر کرزئی سے اٹھایا جائیگا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ فوجی قیادت نے ملک میں دہشت گردوں کے حملوں کے حوالے سے فکر و پریشانی کا اظہار کیا اور کہا کہ ان حالات میں طالبان کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات ممکن نہیں لیکن وزیراعظم نے زور دیا کہ حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا۔