آدابِ فرزندی

محمد جاوید اقبال انجم ؔ......
دنیا میں جتنی بھی قومیں اور مذاہب ہیں، ہر قوم اور ہرمذہب کے پیروکاروں نے اپنی تہذیب ،ثقافت ، تمدن اور مذہب کی آبیاری کے لیے مختلف ادوار میں قربانیاں پیش کی ہیں۔ 
٭قربانی کا معنی و مفہوم :قربانی کے معنی ہیں ،ایسی چیز جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جائے۔ یہ لفظ )قربانی( ’’قُرْبَان‘‘ سے نکلا ہے اور لفظ ’’قُرْبَان‘‘ ’’ قَرُبَ ‘‘سے مآخذہے  تو گویا قربانی کے معنی یہ ہوا کہ ’’جس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے اور اللہ تعالیٰ جس بندے کو اپنا خاص قرب عطافرما دیتا ہے وہ دنیا میں بھی کامیا ب و کامران ہے اور آخرت میں بھی اسے بلند درجات پر فائز کیا جاتا ہے۔٭قربانی کی ابتدائ:قربانی کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے ہابیل اور قابیل سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ابتداء ِقربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ترجمہ:۔اور ذرا انھیں آدم ( علیہ السلام) کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل )کا قصہ بھی صاف صاف سنادو،جب ان دونوں نے اپنی اپنی قربانیاں پیش کیں،تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کر لی گئی،اور دوسرے کی( قبول) نہ کی گئی، تو اس (قابیل )نے کہا :میں تجھے ضرور مارڈالوںگا،اس (ہابیل )نے جواب دیا: کہ اللہ تعالیٰ تو صرف متقین سے ہی قربانی( قبول) فرماتا ہے۔ ٭دین اسلام میں قربانی کی مشروعیت:قربانی کی مشرع اگرچہ ابتدائے آفر ینشِ کائنات سے ہے ،مگر جس کی وجہ سے اسے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فرض کیا گیا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی کا اگربنظر عمیق مطالعہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی ابتلاء وآزمائش کے سخت امتحانات اور قربانیوں سے عبارت نظر آتی ہے۔ اللہ رب العزت جب بھی ا پنے کسی خاص بندے پر نظر کرم فرماتا ہے تو اسے امتحان کی بھٹی میں جلاتا ہے۔ اسی طرح پروردگارِ عالم نے اپنے پیارے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دو ستی اور محبت کو نکھارنے کے لیے آزمائش کی بھٹی میںڈالا اور پھر اس آزمائش سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوستی کندن بن کر چمکی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوستی بے داغ ثابت ہوئی۔ 
٭ پیغام قربانی : قربانی کے اس عمل میں عالم اسلام کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ خالق کائنات کی طرف سے جب بھی کوئی حکم آجائے تو اس کی تعمیل و بجا آوری کانام ہی دین ہے۔ اپنے خالق و مالک کے حکم کی اتباع میں نہ عقلی گھوڑے دوڑانے کی ضرورت ہے ،نہ اس میں حکمتیں اور مصلحتیں تلاش کرنے کا موقع باقی رہتا ہے،اورنہ اس میں کسی قسم کی چوں چراں کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ جب اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آجائے تو اس حکم کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اس حکم کی اتباع کرے۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ بے مثال اتباع کامظاہرہ کرتے ہو ئے بارگاہِ ا لٰہی میں اپنے لختِ جگر کی قربانی پیش کردی۔ اگر خدا چاہتاتو یہ پیغام وحی کے ذریعے بھی دے سکتا تھا۔لیکن درحقیقت یہ ایک امتحان تھا ، چونکہ انبیائے کرام علیہم السلام کاخواب بھی وحی الٰہی ہوتا ہے ،تو کیا وہ اس حکم پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔ اسی لیے ابراہیم علیہ السلام کویہ عمل خواب میں دکھایا گیا۔
ترجمہ :اے میرے بیٹے! میں نے خواب میںدیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں، اب تم بتائو تمہاری کیارائے ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے رائے اس لیے نہیں پوچھی کہ اگر بیٹے کی رائے ہو گی تو ایسا کروں گاورنہ میں اپنے بیٹے کو ذبح نہیں کروں گا۔ نہیں !نہیں! ایسا ہر گز نہیں۔ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رائے اس لیے پوچھی تھی کہ میری نبوت کا وارث اس آزمائش میں پورا اترتا ہے یا نہیں اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اللہ کے حکم کے بارے میں بیٹے کا تصور کیا ہے؟
٭حضرت اسماعیل کی فرمانبرداری:  وہ بیٹا بھی تو کوئی عام بیٹانہیں تھا۔ اگر باپ خلیل اللہ کے مرتبہ پر فائز تھا تو بیٹے کے سر پر بھی ذبیح اللہ کا تاج سجنے والا تھا، کیونکہ آپ علیہ السلام ہی کی صلبِ اطہر سے آقائے دو جہاں ،تاجدارِانبیائ،شفیعِ روزِ جزا، جناب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،اپنے نورِ مبین سے اس جہان کو دائمی روشنی سے منور کرنے والے تھے۔ اس لیے وارثِ نبوت نے بھی اطاعت کی حد کر دی۔آپ علیہ السلام نے اپنے باپ کے آگے سر کو جھکا دیا اور یہ بھی نہیں پوچھا کہ ابا جا ن مجھ سے کیا جرم سر زد ہوا ہے ؟میری خطا کیا ہے؟ جو آپ مجھے موت کے حوالے کرنے جا رہے ہیں، بلکہ قربان جائوں! اس بیٹے پر جس نے نہایت عاجزی وانکساری سے اپنے باپ کے آگے گردن جھکاتے ہوئے جوکلمات اپنی زبان سے ارشاد فرمائے وہ قیامت تک نسلِ انسانی کے لیے مشعل راہ بن گئے۔ چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا :قال یا ابت افعل ما تومر ستجدنی ان شاء اللّٰہ من الصٰبرین o( الصفّٰت: 102 )ترجمہ:اس (بیٹے) نے کہااے ابا جان!آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیاہے، انشاء اللہ ! آپ مجھے عنقریب صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ اے اباجان! میں روئوں گا نہیں اور نہ ہی میں چلائوں گا اور نہ ہی آپ کو اس کام سے منع کروں گا،اب آپ چلیے اور اس حکم کی تعمیل میں دیر نہ کیجئے۔انشاء اللہ ! آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ 
یہ فیضانِ خداوندی تھا یا کہ مکتب کی کرامت!...... کس نے سکھائے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
٭تعمیلِ خواب:اب دونوں باپ بیٹے اپنے مالک کے حکم کو پورا کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ گھر سے چلے اور’’ثبیر‘‘نامی گھا ٹی میں پہنچے۔ وہاں پہنچ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے، اپنے نورِ نظر کو لٹا دیا۔ بیٹے نے عرض کی: ابا جان! مجھے ذبح کرنے سے پہلے مضبوطی سے رسیوں سے باندھنا تاکہ میرے خون کے چھینٹے آپ پرنہ پڑیں، کیونکہ موت بڑی سخت ہوتی ہے اورمیں بہ تقاضائے بشریت ذبح کے وقت اپنے آپ کو تڑپنے، پھڑکنے سے روک نہ سکوںگااورا پنی چھری کو بھی خوب تیز کر لیں تا کہ وہ آسانی سے میری گردن پر چل سکے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے مزیدارشاد فرمایا: اے پیارے ابا جان !آپ مجھے ذبح کرنے کے لئے جب لٹائیںتو منہ کے بل لٹائیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب آپ کی نظر میرے چہرے پر پڑے تو آپ کی شفقت ِپدری میری اس قربانی میں حا ئل ہو جائے۔ اس عظیم المرتب باپ کے عظیم بیٹے نے اپنی آخری گذارش کرتے ہوئے فرمایا: اے اباجان!آپ مجھے ذبح کرنے کے بعد میری قمیض میری ماں کے حوالے کر دینا اس سے ان کو تسلی ہو جائے گی ،اور جب میں اپنی ماں کو یاد آئو ں گا، وہ میری قمیض کو اپنے سینے سے لگا کر اپنے دل میں سکون محسوس کریں گی ،اس سے ان کو صبر آجا ئے گا۔چنانچہ جب دونوں باپ بیٹا گفتگو سے فارغ ہوئے تو حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو مضبوط رسیوں سے باندھ کر چھری تیز کی اور پھر اپنے بیٹے کو پیشا نی کے بل لٹادیا۔ پھر کمالِ ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی نگاہیں لختِ جگر ، نورِ نظر کے چہرے سے ہٹا لیںاور اپنی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے آنسوئوں کے سمندر پر قابو پاتے ہوئے اپنے بیٹے کے حلقِ نازک پر چھری چلادی۔
 اے پیارے خلیل ( علیہ السلام ) ! تو نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے ،اب مجھے اپنا کام کرنا ہے۔ چنا نچہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی چشمانِ نبوت کھولیں تودیکھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ساتھ بیٹھے مسکرا رہے ہیںاور ان کی جگہ ایک دنبہ ذبح کیا ہوا پڑا ہے۔ اللہ رب العز ت کواپنے پیاروں کی ادائیں اتنی پسند آئیں کہ قیامت تک اس سنت ِابراہیمی کو زندہ رکھنے کا حکم صادر فرما دیا ۔ 

ای پیپر دی نیشن