میں اپنے کالم میںعلامہ طاہر القادری کے لڑکپن کے ایک دوست ”بابا ٹل“ سے آپ کا تعارف کرا چکا ہوں جو ہر وقت اپنے گلے میں بڑا گھنٹہ ”ٹل“ لٹکائے رکھتے اور کبھی کبھی میرے خواب میں بھی آتے ہیں۔ میں نیو یارک کے علاقہ ”LONG ISLAND“ میں اپنے بیٹے کے گھر کے باہر لان میں دھوپ سینک رہا تھا کہ بابا ٹل نے حسب روایت و حسب عادت ہاتھ میں پکڑی ہوئی لکڑی کی ہتھوڑی سے گلے میں لٹکے ہوئے ٹل کو بجایا اور میرے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئے۔ میں خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گیا۔ بابا ٹل کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں نے پوچھا۔
بابا ٹل جی! آپ نیو یارک میں بھی؟
بابا ٹل ”میں تو اسی وقت سے نیو یارک میں ہوں جب وزیراعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لئے تشریف لائے تھے!“
میں.... آپ کا ان کی تقریر کے بارے میں کیا تاثر ہے؟
بابا ٹل ”اب تو بات پرانی ہو گئی لیکن مجھے افسوس ہی رہے گا کہ میں اپنے محبوب وزیراعظم کی بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی اور صدر اوباما سے ملاقات نہیں کرا سکا!
میں۔ اگر یہ ملاقاتیں ہو بھی جاتیں تو کیا فرق پڑ جاتا؟
بابا ٹل.... ”فرق کیوں نہ پڑتا؟ کم از کم PHOTO SESSION ہی ہو جاتا۔ بین الاقوامی برادری میں اس طرح کی تقریبات کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ برادری میں ہماری ناک کٹ گئی لیکن ناک کو کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوا ہے؟
میں۔ آپ وطن واپس کیوں نہ گئے؟ ابھی تک نیو یارک میں کیوں ہیں ؟
بابا ٹل۔ ”دراصل میں امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر سید حسین حقانی سے ملاقات کی کوشش میں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ پاکستان واپس چلیں اور دور حاضر میں بھی قوم کی خدمت کریں۔ کئی لوگ تو حقانی صاحب کے لئے ”سجنا تینوں اکھیاں اڈیکدیاں۔“ کی قوالی بھی کرتے رہتے ہیں!“
میں۔ لیکن حقانی صاحب کے خلاف میمو گیٹ کا مقدمہ؟
بابا ٹل.... ”ہا ہا ہا ہا ہا.... بقول شاعر ”کس کس پہ یہاں عشق کا الزام نہیں ہے؟“
جناب آصف زرداری‘ سید یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ مخدوم امین فہیم‘ مخدوم شہاب الدین اور کس کس پر مقدمات نہیں ہیں؟ ”جمہوریت کا تسلسل“ مقصود ہے تو حسین حقانی صاحب کو کیوں برداشت نہیں کر لیا جائے گا۔
میں۔ اور ہاں بابا جی! مجھے یاد آیا۔ سندھ رینجرز نے کراچی میں غوثیہ کالونی سے سنٹرل جیل تک کھودی جانے والی سرنگ پکڑ کر بہت سے خطرناک دہشت گردوں کو جیل سے چھڑانے کا منصوبہ ناکام بنا دیا ہے۔ کمال کر دیا رینجرز نے؟
بابا ٹل.... رینجرز تو کمال کرتے ہی رہتے ہیں۔ کمال تو تب ہوتا جب پولیس سرنگ کھودنے والوں کو پکڑتی یا وزیر جیل خانہ جات جناب منظور وسان کے خواب کی روشنی میں جیل حکام انہیں پکڑتے؟ میرے لئے سب سے بڑی پریشانی کی بات یہ ہے کہ میں نے مختلف نیوز چینلوں پر ایم کیو ایم کے جناب فاروق ستار اور ان کے دوسرے ساتھیوں کو پریشانی کے عالم میں دیکھا۔ جب وہ میڈیا کو بتا رہے تھے کہ ”ایم کیو ایم کے قائدین کو قائد تحریک جناب الطاف حسین سمیت تحریک طالبان کی طرف سے 5 لاکھ سے 25 لاکھ تک بھتا دینے کی پرچیاں دی گئی ہیں۔ میں تو اسے قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی سمجھتا ہوں۔“
میں.... اب کیا کیا جائے؟
بابا ٹل.... میں نے کیا کرنا ہے؟ جو کچھ کرنا ہے وزیراعظم نواز شریف نے ہی کرنا ہے۔ ایم کیو ایم کا یہ مطالبہ تو ماننا ہو گا کہ جن خواتین و حضرات کو بھتے کی پرچیاں بھجوائی گئی ہیں‘ انہیں اور ان کے اہلخانہ (بلکہ اہل محلہ کو بھی) ”FOOL PROOF“ سکیورٹی دی جائے اور لندن میں الطاف بھائی کو بھی!
میں.... لیکن الطاف بھائی کی سکیورٹی کی ذمہ داری تو برطانوی حکومت کی ہے؟
بابا ٹل.... ”یوں تو علامہ طاہر القادری اور ان کے کینیڈین خاندان کی سکیورٹی بھی کینیڈین حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کیا حکومت پاکستان علامہ اینڈ فیملی کی سکیورٹی پر ہر ماہ کروڑوں روپے خرچ نہیں کرتی؟“
میں.... اور وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار ہر روز یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ پاکستان کی 50 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے؟
بابا ٹل.... ”یہ راگ تو جناب ڈار سے پہلے کے وفاقی وزرائے خزانہ بھی الاپتے رہے ہیں لیکن ہمارے ہر دور کے حکمران‘ سیاستدان‘ مذہبی قائدین اور دوسری اہم شخصیات جو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ لوگ ہیں‘ ان سب کی جان اور مال کی حفاظت کرنا حکومت کا فرض ہے۔ ایسے لوگوں کو ”SALT TO THE EARTH“ کہا جاتا ہے!“
میں.... بابا ٹل جی! ”SALT TO THE EARTH“ کی ترکیب حضرت عیسیٰؑ نے اپنے حواریوں کیلئے استعمال کی تھی اور انہیں یہ ہدایت بھی کی تھی۔ ”تمہارے لئے کپڑوں کا ایک جوڑا“ ایک جوڑی جوتے اور ایک عصا کافی ہے“ پیغمبر انقلاب کی پیروی میں صحابہ کرامؓ کا لباس اور رہن سہن بھی سادہ تھا لیکن آج کے دور کے علماءبھی جاگیرداروں اور نوابوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں؟
بابا ٹل.... ”اثر چوہان صاحب! اب اس میں میرا کیا قصور؟ علامہ القادری کی طرح میرا 90 ملکوں میں کاروبار ہے لیکن میرا لباس اور رہن سہن سادہ ہے۔ میں نے اپنے گلے میں اپنی مرضی سے ”ٹل“ لٹکا رکھا ہے‘ یہ کوئی لعنت کا طوق نہیں ہے جو بطور سزا کے کسی حاکم نے میرے گلے میں لٹکایا ہو!
میں.... بابا ٹل جی! آپ نے سب سے بڑی خبر پر تبصرہ ہی نہیں کیا کہ ”برطانوی دارالعوام نے بے شک علامتی طور پر ہی سہی لیکن ریاست فلسطین کو تسلیم کر لیا ہے۔“ مبارک ہو؟
بابا ٹل.... آپ کو بھی مبارک ہو لیکن ہم دونوں اس مبارک باد کے مستحق ہرگز نہیں ہیں۔ یہ فلسطینی عوام کی قربانیوں اور ان کی سفارت کاری کا ثمر ہے یا بعض مسلمان ملکوں کی پرخلوص حمایت کا نتیجہ بعض عرب ملکوں نے یورپی یونین سے تجارت بند کرنے اور تمام یورپی ملکوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی مہم چلا رکھی تھی۔ کوئی بھی یورپی ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی کی پاکستانی نژاد رکن دارالعلوم محترمہ شبانہ محمود اور دوسرے فرزندان و دختران پاکستان نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی تھی۔ اگست 2014ءمیں پاکستانی نژاد کنزر ویٹو پارٹی کی رکن دارالعلوم محترمہ سعیدہ وارثی نے اپنی پارٹی کی حکومت کی غزہ سے متعلق پالیسی کو ”اخلاقی طور پر عدم مدافعانہ“ قرار دے کر ”فارن آفس سنٹر“ کی پوسٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا!
میں بابا ٹل جی! کیا دنیا خاص طور پر یورپی ملکوں میں مقیم فرزندان و دختران پاکستان بھارت کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے بھارت کو مسئلہ کشمیر کے پرامن حل پر آمادہ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے؟
بابا ٹل.... ”واہ جی واہ! اسے کہتے ہیں ”مدعی سست اور گواہ چست“ پاکستان کے وزیر امور کشمیر اور وفاقی وزیر کے برابر مرا ات یافتہ چیئرمین کمیٹی مولانا فضل الرحمن سرکاری خرچ پر بھارت کے نجی دورے کرتے ہیں اور ہمارے وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ پنجاب‘ وفاق اور پنجاب کے اکثر وزرا ”مال کے بدلے مال“ کی تجارت میں گھلے جا رہے ہیں۔ جب پاکستان کے بازاروں اور گلی محلوں میں بھارتی مصنوعات کی بھرمار ہو تو بیرون ملک فرزندان و دختران پاکستان‘ بھارتی مصنوعات کا کیوں بائیکاٹ کریں گی؟
میں.... تو مسئلہ کشمیر کیسے حل ہو گا؟
بابا ٹل.... کشمیری وزیراعظم اور آزاد کشمیر کے صدر اور وزیراعظم سے پوچھیں۔ میں تو بابا ٹل ہوں۔ ٹل بجا کر آپ جیسے لوگوں کے خواب میں آجاتا ہوں اور پاکستان اور اس کے مسائل کے بارے میں کڑھتا رہتا ہوں۔
میں.... تو میں کیا کروں؟
بابا ٹل نے پھر ٹل بجایا اور غائب ہو گئے پھر میری آنکھ کھل گئی۔