معمار پاکستان کی شہادت

قائداعظم پاکستان کے بانی تھے اور قائداعظم کے دست راست لیاقت علی خان نہ صرف تحریک پاکستان کے ایک ممتاز اور نمایاں ترین رہنما تھے بلکہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے طور پر لیاقت علی خان کو صحیح معنوں میں پاکستان کے معمار ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔ قائداعظم قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد وفات پا گئے تھے اور یہ ایک سال بھی قائداعظم شدید علالت کا شکار رہے۔ اس عرصہ میں قائداعظم کے معتمد ترین ساتھی اور تحریک پاکستان کے ہرمرحلے میں ان کے عظیم رفیق کار لیاقت علیخان ہی وہ شخصیت تھے جن کی ناقابل تسخیر جرات، غیر معمولی تدبر و فراست اور بے لوث قومی خدمات کے باعث پاکستان نے ترقی اور معاشی استحکام کی منزل کی طرف تیزی سے اپنا سفر شروع کردیا۔ قائداعظم کے تاریخی قول ایمان، اتحاد اور تنظیم ہمیشہ لیاقت علی خان کے پیش نظر رہے۔ پاکستانی قوم کو بھی لیاقت علی خان کی ولولہ انگیز قیادت پر مکمل اعتماد تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لیاقت علی خان اپنے چار سالہ دور حکومت میں ایک بالکل نئے جنم لینے والی مملکت پاکستان کے وجود اور اہمیت کو عالمی برادری کے سامنے ایک آزاد اور باوقار ریاست کے طور پر منوانے میں کامیاب ہو گئے۔ لیاقت علی خان اتنے بے غرض، مخلص اور اپنے ذاتی مفادات سے قطعی طور پر بے نیاز ایک ایسے سیاست دان تھے کہ وہ زندہ رہے تو پاکستان کیلئے اور انہوں نے شہادت کی صورت میں موت کو گلے لگایا تو وہ بھی پاکستان کیلئے۔
لیاقت علی خان نے 16 اکتوبر 1951ء کو جب کراچی سے راولپنڈی کی طرف اپنے سفر کا آغاز کیا تو انکے کمسن بیٹے اکبر لیاقت علی خان نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بھی ان کے ساتھ راولپنڈی جائیگا۔ لیاقت علی خان نے اپنی باوقار اور محبت بھری آواز میں بیٹے کو سمجھایا کہ نہیں، تم سکول جائو گے۔ باپ اور بیٹے کے درمیان جب یہ گفتگو ہو رہی تھی، دونوں کو معلوم نہیں تھا کہ یہ انکی زندگی کا آخری مکاملہ ہے اور کراچی سے راولپنڈی تک لیاقت علی خان کا سفر بھی آخری ثابت ہو گا۔ راولپنڈی پہنچ کر لیاقت علی خان نے سرکٹ ہائوس میں آرام کیلئے کچھ وقت گزارا جہاں سے ان کا پونے ۔چار بجے سہ پہر جلسہ گاہ کی طرف اس نامبارک سفر کا آغاز ہوا کہ جس جلسے میں ایک قاتل کی گولیاں لیاقت علی خان کی موت کی منتظر تھیں۔ تلاوت اور سپاس نامہ کے بعد جب لیاقت علی خان کو تقریر کی دعوت دی گئی تو انکے ہونٹوں سے بڑے دلنواز انداز میں یہ الفاظ ’’برادران ملت‘‘ ادا ہوئے ہی تھی کہ قاتل نے اپنے پستول سے دو فائر ان پر کئے۔ لیاقت علی خان سٹیج پر گر پڑے۔ انہوں نے گولیاں لگنے سے شدید طور پر زخمی ہونے کے باوجود انتہائی پرسکون طور پر کلمہ طیبہ پڑھا اور اسکے بعد ان کی زبان پر شہادت سے پہلے آخری الفاظ یہ تھے کہ ’’خدا پاکستان کی حفاظت کرے‘‘ پاکستان کی محبت میں یہ الفاظ ادا کرنے کے بعد وہ روشن آفتاب جسے پاکستانی قوم شہید ملت لیاقت علی خان کے نام سے آج بھی اپنے دلوں میں زندہ رکھے ہوئے ہے، 16 اکتوبر 1951ء کی شام سے پہلے ہی غروب ہو گیا۔ لیاقت علی خان آج کے پاکستان کے حکمرانوں سے یکسر ایک مختلف حکمران تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کی حفاظت کیلئے کبھی کسی انتظام یا منصوبہ بندی کا حکم نہیں دیا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کو قادر مطلق اور ہر جگہ ہر وقت حاضر و موجود سمجھتے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ دنیا کی کوئی سکیورٹی انتظام جب اللہ کو منظور نہ ہو تو مجھے موت سے نہیں بچا سکتا اور اسی طرح زندگی کا ایک لمحہ کم یا زیادہ نہیں ہو سکتا۔ اس حوالے سے قائد ملت لیاقت علی خان کی 14 اگست 1951ء کی وہ تقریر بھی فراموش نہیں کی جا سکتی جس میں انہوں نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ ’’اب میرے پاس کوئی ذاتی جائیداد اور سرمایہ نہیں ہے کیونکہ ہندوستان میں چھوڑی ہوئی اربوں روپے کی جائیداد کے بدلے میں میں نے پاکستان میں کوئی جائیداد الاٹ نہیں کروائی۔ میرے پاس صرف میری زندگی ہے جو میں پاکستان کیلئے وقف کر چکا ہوں اور جب بھی میری قوم اور میرے وطن کو ضرورت پیش آئی تو میں اپنی جان قربان کرنے کیلئے سب سے آگے ہوں گا‘‘ لیاقت علی خان نے اپنی اس تقریر کے ایک ایک لفظ کو سچ ثابت کردیا۔ لیاقت علی خان کوئی جذباتی انسان نہیں تھے۔ وہ ایک نہایت سمجھدار، فہم، مدبر اور ٹھنڈے مزاج کے ایک سنجیدہ سیاستدان تھے۔ وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے میں جلد باز نہیں تھے۔ وہ تمام پیچیدگیوں اور مشکلات کو سامنے رکھ کر پوری غور و فکر کے بعد کوئی فیصلہ کرتے تھے۔ لیاقت علی خان پاکستان کا دل بھی تھے اور دماغ بھی۔ وہ ہر وقت اپنی قوم کیلئے سوچتے تھے۔ انہیں ہر لمحہ جس انداز میں پاکستان کی فکر رہی تھی اس میں ذاتی جائیدادیں بنانے، بے پناہ دولت جمع کرنے اور اپنی ذات کیلئے کارخانے لگانے کی سوچ داخل ہی نہیں ہو سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب لیاقت علی خان نے اپنی جان بھی پاکستان پر قربان کر دی تو ان کے خاندان نے سرکاری رہائش گاہ کو جب چھوڑا تو پورے پاکستان میں ایک چھوٹا سا ذاتی مکان بھی نہیں تھا جس میں لیاقت علی خان کی بیوی اور بچوں نے منتقل ہونا تھا۔ لیاقت علی خان ایک مہاجر کے طور پر پاکستان میں آئے وہ ایک خاندانی نواب تھے۔ ان کی ہندوستان میں جاگیریں بھی تھیں اور کوٹھیاں بھی لیکن کیا ہمارے موجودہ حکمران طبقے سے کسی ایک سیاستدان کا بھی لیاقت علی خان جیسا کردار ہے؟ کہ لیاقت علی خان نے تو پاکستان میں اپنا جو حق بنتا تھا وہ بھی نہ لیا اور ہمارے اس دور کے حکمران قومی خزانے کو بھی لوٹ کر اسے اپنی ذاتی جائیدادوں اور سرمائے میں تبدیل کر لیتے ہیں۔ لیاقت علی خان اگر ہمارے موجودہ عہد کے سیاستدانوں کی طرح خود غرض یا لالچی ہوتے تو وہ اس پاکستان کی تعمیر کیسے کرتے جس کے سیکرٹریٹ اور سرکاری دفاتر کیلئے عمارتیں موجود نہیں تھیں۔ حکومت کے دفتروں میں قلم، کاغذ اور دوات تک نہیں تھی۔
ہماری فوج کے پاس گولہ بارود اسلحہ، توپیں اور جنگی طیارے نہیں تھے۔ پھران لاکھوں مہاجرین کا مسئلہ تھا جو لٹے پٹے اور قتل و غارت گری کے مصائب سے گزرتے ہوئے جب پاکستان پہنچتے تھے تو انکے پاس تن ڈھانپنے کیلئے کپڑے تھے اور نہ ہی سر چھپانے کیلئے کوئی جھونپڑی۔ لیاقت علی خان نے ان مہاجروں کی خدمت اور آبادکاری کے کام میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی، مگر عظمت کی بات یہ ہے کہ وہ جس طرح لٹے پٹے خود پاکستان آئے تھے لیاقت علی خان نے اپنی اس زندگی کو تبدیل کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہ کی اور نہ ہی کبھی اس پردکھ کا اظہار کیا کہ وہ ہندوستان میں کیا کچھ چھوڑ آئے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ کاش ہمیں اللہ تعالی اپنے خاص فضل و کرم سے لیاقت علی خان جیسا کوئی بے غرض اور بے لوث لیڈر ایک بار پھر ہماری قوم کی رہنمائی کیلئے پیدا کر دے جسے اپنی ذاتی کا کوئی غم نہ ہو جو سوچے اور عمل کرے تو صرف پاکستان کیلئے۔ جو قوم کی ہر مثبت امید، امنگ اور آرزو کو پورا کرے۔ لیاقت علی خان جیسا قومی ہیرو اور نجات دہندہ ہی پاکستان کو موجودہ گھمبیر صورتحال سے نکال سکتا ہے۔ نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان اور طاہر القادری جیسے سیاستدان ملکی حالات کو خراب تو کر سکتے ہیں لیکن ان سے بہتری کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ صرف وہ لیڈر ہی پاکستان کا مقدر بدل سکتا ہے جس میں قوم کیلئے قربانی اور ایثار کا جذبہ موجود ہو۔ کیا نواز شریف اور زرداری جیسے سیاستدان اپنے کھربوں روپے کے اثاثوں میں سے آدھی رقم ہی قومی خزانے میں جمع کروانے کیلئے تیار ہیں۔ جب ہماری قوم کی آبادی کا زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے تو ہمارے لیڈر اپنی زندگیوں میں سے عیش و نشاط کا ایک لمحہ بھی قربان کرنے کیلئے کیوں تیار نہیں ہیں۔ قوم کو بارہ بارہ گھنٹے کی طویل لوڈشیڈنگ کا تحفہ دینے والے اپنے شاہی محلات میں ایک سیکنڈ کی لوڈشیڈنگ بھی برداشت کیوں نہیں کر سکتے۔ ہمارے یہ سیاست دان لیاقت علی خان جیسا تو نہیں بن سکتے کاش انکی عظمت کردار کی تھوڑی سی جھلک ہی وہ اپنے اندر پیدا کر لیں۔

ای پیپر دی نیشن