قائد ملت اور امام صحافت

تاریخ گواہ ہے جو قومیں اپنے مشاہیر کی راہ ترک کر دیں ، اپنے محسنوں کو فراموش کر دیں تو وہ ملک اور قومیں بحرانوں سے دو چار ہوتی ہیں ، زوال پزیر ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ہم بھی جن حالات اور مسائل کی زد میں ہیں شاید اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے عظیم قائدین کے بتائے رستے کو ترک کردیا ۔ ہمارے اعمال اور ہمارے نیک سیرت بزرگوں کے کردار میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہوتا جا رہا ہے ۔ ماضی قریب میں تحریک پاکستان کی اہم شخصیات پر نظر ڈالیں تو ہر کردار لافانی ، ہر رہنما چمکتا ستارہ نظر آتا ہے ۔ 16اکتوبر شہادت کا دن ہے ہمارے پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کا جنہوں نے ایک نواب گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ ساری زندگی قوم کی خدمت قائد اعظم کے دست راست کے طور پر کرتے رہے ۔وزیر اعظم بنے تو قوم و ملک کیلئے جینے مرنے کا عہد کیا اور 16اکتوبر کو ایک اپنے ہی غدار کے گولی سے تاریخ کو لہو رنگ کرکے اپنا عہد نبھاگئے ۔ لیاقت علی خان قائد ملت سے شہید ملت کے مقام پر فائز ہوئے ۔یہ خطاب معروف عالم دین سید سلمان ندوی نے آپکی شہادت پر دیا ۔شہید ملت کا شمار ان محدود چند مسلم لیگیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے کبھی کانگریس میں شمولیت اختیار نہیں کی ۔آپ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ جب سر محمد شفیع نے پنجاب مسلم لیگ علیحدہ کی تو کافی نامور لوگ انکے ہمنوا تھے مگر لیاقت علی نے محمد علی جناح کا ساتھ دیا۔ شہید ملت کو مسلم لیگ کی وہ منفرد شخصیت ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو انہوں نے لندن جا کر حضرت قائد کو واپس ہندوستان آکر مسلمانوں کی قیادت اور آزادی کا پرچم تھامنے پر قائل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔لیاقت علی فنا فی الاسلام فنا فی المسلم لیگ اور فنا فی الپاکستان تھے۔آپکو مادر ملت کے بعد سب سے زیادہ حضرت قائد کی قربت اور اعتماد کے حامل ہونے کا اعزاز حاصل تھا جس کا زندہ ثبوت ہے کہ حضرت قائد نے اپنے بعد جو ذمہ داری ہوئی سب سے پہلی نظر لیاقت علی پر پڑی ۔مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری کی مسند حضرت قائد کی خواہش پر 1937ء سے 1948ء تک لیاقت علی پر ہی بھروسہ کیا گیا ۔متحدہ ہندوستان کی حکومت میں وزارت خزانہ کے منصب کیلئے قائدین کی نظر انتخاب بھی لیاقت علی تھے ۔قیام پاکستان کے وقت وزیر اعظم ہی اہم ترین ذمہ داری کی لیاقت بھی قائد ملت میں دکھائی دی گئی ۔غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ حضرت قائد سب سے زیادہ اعتماد اور بھروسہ شہید ملت پر کرتے تھے ۔ شاید انہیں اپنی ذات کا حصہ تصور کرتے ہوں ۔مسلم لیگ کو عوامی جماعت بنانے میں لیاقت علی کی تنظیمی صلاحیت اور سماجی رابطوں کا بڑا دخل تھا ۔ مزاج میں عاجزی و انکساری کے ساتھ بروقت فرض کی بجا آواری نے آپ کو ہر دلعزیز شخصیت بنایا ۔ مستقبل شناسی ، اعلیٰ منصوبہ سازی اور عزم و استقلال کے اعلیٰ وصف کے سبب بے سرو سامانی اور لاکھ سازشوں کے باوجود ملک کو استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن کرناوہ عظیم کارنامہ ہے جس پر دشمن ششدر رہ گئے ۔ یقینا ان خداداد صلاحیتوں نے آپ کو ایک کامیاب معمار و حکمران ثابت کیا ۔ متحدہ ہندوستان کا بجٹ پیش کرنے سے ایک جانب لیاقت علی کے ساتھ مسلم قوم کا سر فخر سے بلند ہوا تو دوسری جانب مسلم دشمن قوتوں کو مسلمانوں کی اقتصادی امور پر دست رست کا ادراک بھی ہوگیا ۔ بجٹ میں اسلامی تصور حیات کی جھلک واضح نظر آئی ۔ امیروں کے وسائل کا رخ غریبوں کے مسائل کے حل کی جانب موڑ دیا دیا یعنی ایک لاکھ کمانے والے کو پچیس فیصد ٹیکس ادا کرنا پھر غریبوں اورکسانوں کیلئے مراعات کا اہتمام حکومتی اخراجات میں کمی جس سے برگشتہ ہو کر سردار پٹیل پکار اٹھا کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے ۔جہاں لیاقت علی خان نے ملکی و بین الاقوامی معاملات میں نمایاں حیثیت کے اہم نقوش چھوڑے وہاں مسلم لیگ اور نظریہ پاکستان کیلئے بھی انکی خدمات قابل تحسین ہیں ۔آپ پاکستان کو آئین تو نہ دے سکے مگر قرار داد مقاصد قانون سازی اسمبلی سے پاس کر وا کر اسلامی ریاست کو سمت نما عطا کر گئے ۔ قائدملت کے بارے میں امام صحافت جناب مجید نظامی کا موقف بڑا مدلل اور واضح ہے کہ آپ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بعض امور میں اختلاف بھی فرماتے ہیں ۔ ایک موقع پر فرمایا کہ لیاقت علی خان قائد ملت ہیں ۔قائداعظم نے ہمیں پاکستان عطا کیا جس کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت تھے ۔ابتداء میں ہی مسلم لیگ کے اندر سیاست شروع ہوگئی ۔ دولتانہ اور ممدوٹ آپس میں دوست تھے مگر اقتدار کی کشاکش نے آمنے سامنے کر دیا ۔قائد ملت دولتانہ کے ساتھی بن گئے اور نوائے وقت نے ممدوٹ کو حق پر جانا یوں اسے قائد ملت کی مخالفت کرنے کی پڑی ۔ نوائے وقت نے ہمیشہ حکمرانوں کے ساتھ یکساں رویہ رواں رکھا ۔ لیاقت علی خان کو ایک سازش کے تحت قتل کر دیا گیا ۔جناب نظامی نے فرمایا کہ ڈاکٹر رفیق اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسلامیہ کالج لاہور میں زمانہ طالب علمی کے دوران 1946ء کے انتخابات میں کام کرنے کے صلے میں قائد ملت کے ہاتھوں مجاہد پاکستان کے خطاب کا سرٹیفیکیٹ اور ایک اعزازی تلوار ملی ۔ نظامی صاحب نے کہا کہ طویل عرصہ گزرنے کے باوجود قوم قائد ملت پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے قتل کے پس پردہ محرکات کے بارے میں آگاہ نہیں ہو سکی حالانکہ ہمارے پاس فوج کے علاوہ دوسری ایجنسیاں موجود ہیں پھر بھی اہم شخصیات کے قتل کے پیچھے سازشوں کو بے نقاب نہیں کیا جاتا ۔ ہم ہر سال شہید ملت کی یاد میں تقریب منعقد کرکے ان کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہیں تاکہ نئی نسل تحریک پاکستان کے رہنمائوں کے افکار فرمودات حیات و خدمات سے آگاہی حاصل کر سکیں ۔قارئین کرام مجید نظامی نے بھی تحریک پاکستان کے قائدین کی مانند اپنا تن من دھن مشاہیر تحریک پاکستان کی عملی پیروی انکے خیالات و افکار کی ترویج و اشاعت نظریہ پاکستان کے تحفظ اور اس کو نسل نو تک پہچانے کیلئے وقف کر رکھا ہے ۔شہید ملت کی طرح ساری زندگی ملکی بقا اور استحکام کی جدوجہد میں گزاری ۔ اگر ہم نے تکمیل پاکستان کا جذبہ کارما ہے تو ہمیں ان دونوں عظیم رہنما ئوں شہید ملت لیاقت علی خان اور مجاہد پاکستان امام صحافت مجید نظامی کی پاکیزہ زندگی کو اپنے شب و روز میں شامل کرتے ہوئے ایثار و اخلاص کے اس معیار تک پہنچنا ہوگا جو شہید ملت اور مجاہد پاکستان نے اپنے عمل صالح سے قائم کیا ہے ۔وہی مشعل راہ بھی ہے اور زاد منزل بھی۔

ای پیپر دی نیشن