اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں) وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کے لئے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پہلے یہ طے ہونا ضروری ہے کہ فوج کے ترجمان کی ٹویٹس کی کوئی قانونی حیثیت ہے بھی یا نہیں۔ جسٹس دوست محمد خان نے یہ ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عمومی طور پر آئی ایس پی آر کے سربراہ میڈیا کے نمائندوں کو بلا کر ہی کوئی بیان دیتے ہیں۔ درخواست گزار گوہر سندھو نے کہا کہ وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں دھرنا دینے والی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے فوج کے سربراہ کو سہولت کار کا کردار دینے کے بعد اْس سے منحرف ہو جانا فوج کو بدنام کرنے کی سازش ہے اور جھوٹ بولنے والا شخص صادق اور امین نہیں رہ سکتا، اس لئے میاں نوازشریف کی قومی اسمبلی کی رکنیت کو منسوخ کیا جائے۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ وزیراعظم کے اس بیان سے متعلق فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے ایک ٹویٹ کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ آرمی چیف کو سہولت کار کا کردار ادا کرنے سے متعلق کہا گیا تھا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ نظریہ ضرورت ختم ہو چکا ہے اور اب اس کو زندہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ فوج کے خلاف کوئی بات ہو تو لوگ مستعدی کے ساتھ عدالت میں درخواست جمع کروا دیتے ہیں۔ عدلیہ کے خلاف بیان بازی کی جاتی رہی ہے لیکن اس پر تو کسی نے درخواست نہیں دی جبکہ اْسی آئین میں درج ہے کہ فوج اور عدالت کے خلاف کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ جسٹس دوست محمد خان نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ کیا ڈی جی آئی ایس پی آر فوج کی ترجمانی کرتے ہیں یا فوج کے سربراہ کی؟ اس پر درخواست گزار کا کہنا تھا کہ آئی ایس پی آر مسلح افواج کی ترجمانی کرتی ہے جس میں ان مسلح افواج کے سربراہ بھی شامل ہیں۔ بنچ کے سربراہ جسٹس جواد نے کہا کہ محض اخباری تراشوں کو بنیاد بناتے ہوئے عدالتیں فیصلہ نہیں دیتیں اس کے لیے عدالتوں میں شہادتیں پیش کی جائیں۔ اْنہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ہونے والی بات چیت کی گواہی کوئی اور نہیں بلکہ یہ دونوں افراد ہی دے سکتے ہیں۔ جسٹس دوست محمد خان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ اْنہوں نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اْنہوں نے ایک ’پرندہ‘ پھانسنے کے لیے درخواست دی ہے لیکن اس میں تو سو پرندے پھنس جائیں گے۔ اْنہوں نے کہا کہ صوبہ خیبر پی کے میں بھی چھ ماہ میں بجلی اور گیس مفت فراہم کرنے اور بلدیاتی انتخابات کروانے کا وعدہ کیا گیا تھا ایک بھی پورا نہیں ہوا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ صادق اور امین ہونے کے لیے ضروری ہے کہ سیاست دان عوام سے جھوٹ نہ بولیں۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ وزیراعظم پر الزام کا سارا دارومدار اس بات پر ہے کہ آپ ثبوت اور گواہ لائیں، وزیراعظم اور آرمی چیف ملاقات میں جو الفاظ وزیراعظم نے کہے وہی اصل حقائق ہوں گے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اگر یہ ثابت کرنا ہے کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں تو اس کا بھی طریقہ ہے، ثبوت پیش کئے جائیں، وزیراعظم کی تقریر کا سرکاری متن دیا جائے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ عوام کو علم ہونا چاہئے کہ ان کے مقدر کا فیصلہ کیا اور کہاں ہو رہا ہے۔ ہمارا قانون شہادت اسلامی قانون سے مشابہت رکھتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ میڈیا کی خبر کو ثبوت مان کر فیصلہ دے دیں۔ ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آئین اور قانون کے طریقے پر عمل کریں۔ کسی فرد کی ذاتی حیثیت سے پیش ہوئے بغیر اس کے بیان کو سچ نہیں مان سکتے۔ قوم کی امانت قوم کو پہنچانا ہم سب کا فرض ہے۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ پاکستان کا آئین جب بنا اس وقت دائیں اور بائیں بازو کی قوتیں موجود تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سوشل ازم کے داعی تھے، پاکستان کا آئین متوازن بنا۔ گوہر نواز نے کہا کہ جس نے آئین بنایا انہوں نے سیاستدانوں کے لئے راستہ رکھا کہ فوج کی کلاس لیں۔ جسٹس جواد نے استفسار کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ آئین میں جان بوجھ کر کمی رکھی گئی۔ درخواست گزار اسحاق خاکوانی کے وکیل عرفان قادر نے عدالت میں سپیکر کی رولنگ پیش کی۔ کیس کی سماعت آج (جمعرات) تک ملتوی کر دی گئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ بادی النظر میں درخواست گزار کا حق دعویٰ تو بنتا ہے، درخواست قابل سماعت ہوئی تو عدالت طے کرے گی کہ طریقہ کار کیا ہو گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے درخواست گزار وکیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ کل بوریا بستر لے کر آئیے گا، آپ کو درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دینے ہیں۔ ثنا نیوز کے مطابق جسٹس جواد نے وزیراعظم کی تقریر کا سرکاری متن طلب کرتے ہوئے کہاکہ آئین میں آرٹیکل 62 اور 63کی شق شامل کرنے والا خود صادق اور امین نہیں تھا اور دوسروں سے اس کا مطالبہ کرتا تھا، اسمبلی کی کارروائی پبلک پراپرٹی ہوتی ہے، سب کو ملنی چاہئے۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات میں ہونے والی بات کی گواہی دونوں افراد ہی دے سکتے ہیں کوئی تیسرا فرد نہیں۔ آن لائن کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نااہلی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 62-63 کی شق لانے والا خود غاصب تھا‘ جو خود تو صادق اور امین نہیں تھا مگر دوسروں کو صادق اور امین دیکھنا چاہتا تھا‘ چاہتے ہیں کہ قوم کو اس کے مقدر کے فیصلے کا علم ہونا چاہئے‘ جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دئیے کہ فوجی حکمرانوں نے 1973ء کے آئین کا حلیہ ہی بگاڑ دیا‘ عوامی نمائندوں کو قوم سے جھوٹ بولنے کا کوئی حق نہیں‘ ووٹرز سے جھوٹ بولنا سیاستدانوں کا وطیرہ ہے‘ جو وعدے پورے نہیں ہوسکتے انہیں منشور میں کیوں ڈالا جاتا ہے‘ عوام کو صاف پانی تو میسر نہیں باقی وعدے کیسے پورے ہوں گے‘ جو سیاسی جماعتیں منشور میں کئے گئے وعدے پورے نہیں کرتیں وہ صادق اور امین کہلا سکتی ہیں۔دی نیشن کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز نے کہا کہ اصل صورتحال اسی صورت میں واضح ہو گی جب وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ملاقات کی تفصیلات عدالت کے سامنے پیش کی جائیں گی اور اس حوالے سے آرمی چیف کو بیان حلفی جمع کرانا ہوگا کہ وزیراعظم نے ان کو سہولت کار کا کردار ادا کرنے کا کہا۔ عدالت نے کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ وزیراعظم نے آرمی چیف سے ملاقات کے دوران کیا الفاظ استعمال کئے۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ آیا فوج کے ترجمان کا بیان فوج کی ترجمانی تھا یا آرمی چیف کی، بادی میں تو یہ آرمی چیف کی ترجمانی تھا، ویسے بھی فوج کے سربراہ اپنا موقف پیش کرنے کیلئے میڈیا کے سامنے نہیں آئے۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ عدالت میں فوجی ترجمان کی طرف سے بیان حلفی نہیں جمع کرایا گیا۔ جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ وہ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ کورٹ کے سامنے پیش نہ ہوں۔ فوج کی بدنامی کا معاملہ بھی زیر غور آئیگا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ بدنامی کیخلاف درخواست دائر کرنے کا حق فوج کو ہو مگر انہوں نے درخواست نہیں دی۔ پہلے یہ ثابت ہوجائے کہ سچ اور جھوٹ کیا ہے؟ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ فوج کا کردار مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی۔
وزیراعظم کی سہولت کاری کیلئے درخواست‘ آرمی چیف کو بیان حلفی دینا ہو گا: سپریم کورٹ
Oct 16, 2014