جنرل (ر)پرویز مشرف کی تحسین کے باب میں

اِن دنوں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی فوجی بغاوت ایک مرتبہ پھر موضوعِ بحث بن چکی ہے- میں اپنی اِس مختصر تحریر میں”عیبِ مے جملہ بگفتی ، ہُنرش نیزبگو“ کے مصداق جنرل مشرف کے حُسنِ انتظام کی تحسین کرنا چاہتا ہوں-یاد رہے کہ آج تک میری جنرل پرویزمشرف سے ایک بار بھی کوئی ملاقات نہیں رہی-اِس کے باوجود اقتدار سنبھالنے کے فقط چند ہفتے بعدکی ایک سہ پہر محب گرامی محسن حفیظ صاحب نے فون پر بتایا کہ” اکادمی ادبیات کے چیئرمین کی تقرری کیلئے تین ناموں کا جو پینل موصول ہوا ہے جنرل صاحب کو اُن میں سے کوئی ایک نام بھی پسند نہیں- مجھ سے کہا گیا ہے کہ تم سے پوچھ کر بتاﺅں کہ کیا تم یہ عہدہ قبول کرنے پر تیار ہو؟ “میں نے بصد احترام معذرت کی اور کہا کہ میری رائے میں اکادمی ادبیات پاکستان کا کوئی چیئرمین ہونا ہی نہیں چاہیے- اِس کی بنیادی دستاویز کے مطابق ایک اعزازی بورڈ آف گورنرز فیصلے کرتا ہے اور اکادمی کا ایگزیکٹو سیکرٹری اِن فیصلوں کو عملی جامہ پہناتا ہے- صدر جنرل ضیاءالحق کے دورِ اقتدار سے پیشتر اکادمی کا یہی دستور تھا مگر جنرل ضیاءالحق نے ایک جنرل جو واقعتا ایک نامور اور باصلاحیت ادیب تھا اُسے اکادمی میں بطور چیئرمین لابٹھایا تھا- بعد ازاں یہ عہدہ مستقل ہو کر رہ گیا-میں چونکہ اِس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اکادمی کا کوئی چیئرمین نہیں ہونا چاہیے اور سارے علمی اور انتظامی فیصلے ایک غیر جانبدار بورڈ آف گورنرز کرتا رہے اور اکادمی کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر اِن فیصلوں پر عملدرآمد کی ذمہ داری ادا کرتا رہے، اِس لیے میں بصد عجز و نیاز یہ پیشکش قبول کرنے کو تیار نہیں- اڑھائی تین ہفتے بعد ایک مرتبہ پھر جناب محسن حفیظ نے فون پرمجھے مقتدرہ قومی زبان کا چیئرمین بن جانے کی دعوت دی اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ یہاں کسی طرح کی سیاست کا کوئی بھی عمل دخل نہیں ہوگافقط قومی زبان کی اہمیت کے پیشِ نظر جنرل صاحب کو آپ کا نام یاد آیاہے- میں نے فوراً حامی بھر لی اور یوں میں برس ہا برس تک اُردو کی خدمت میں مصروف رہا- اِس دوران میں روزنامہ نوائے وقت میں کالم بھی لکھتا رہا جن میں بسااوقات حکومت کی علمی اور تہذیبی حکمتِ عملی تنقید کا نشانہ بنتی رہی- ایک مرتبہ قومی سیاست کا ایک ایسا موضوع بھی پے در پے میری تنقید کا نشانہ بنتا رہامگر مشرف انتظامیہ کی تیوری پر کبھی کوئی ایک بل بھی نہ پڑا-
چوہدری برادران نے مشرف کابینہ میں اپنے ساتھیوں کو قائل کر لیا تھا کہ چوہدری رحمت علی مرحوم ہمارے قومی ہیرو ہیںاور ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم انگلستان کے ایک قبرستان سے اُنکی میّت نکال کر پاکستان لے آئیں اور یہاں اُنھیں ایک قومی ہیرو ، بانیانِ پاکستان میں سے ایک شخصیت کے شایانِ شاں مزار میں از سرِنو دفن کر دیں-
میں نے اِس سے اختلاف کیا -میرا استدلال یہ تھا کہ لفظ ”پاکستان“ بھی اقبال کی تخلیق ہے اور پاکستان کا حقیقی تصور بھی علامہ اقبال نے دیا تھا-
بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے وسط تک چوہدری رحمت علی علامہ اقبا ل کے ایک مرید کی حیثیت میں اقبال کے تصور کو انگلستان کی طالب علم برادری میں عام کرنے میں مصروف رہے- پھر وہ ہٹلر کے طلسم میں آ گئے اور اُنھوں نے اُسکی فاشسٹ آئیڈیالوجی کے جادو میں آکر پورے برصغیر کو پاکستان کا نام دینا شروع کر دیا- علامہ اقبال اور قائداعظم کے جمہوری تصورات ترک کرنے اور ہٹلر کے فاشسٹ تصورات اپنانے کے بعد وہ قیامِ پاکستان تک تحریکِ پاکستان کی مخالفت میں سرگرم رہے- اِس موضوع پر میں نے متعدد کالم لکھے-
مرحوم مجید نظامی انھیں اہتمام کے ساتھ شائع فرماتے رہے مگر چوہدری رحمت علی لابی سرکار دربار میں سرگرم رہی اور بالآخر یہ فیصلہ کردیاگیاکہ چوہدری رحمت علی کی میّت لانے کیلئے سرکاری وفد انگلستان روانہ کر دیا جائے گا- طیارے کے پرِپرواز کھولنے کی تاریخ مقرر کر دی گئی - تب میں نے اِس سلسلے کا آخری کالم سپردِ قلم کیا- عنوان تھا : ”چوہدری رحمت علی بقلم خود“ - اِس کالم میں میں نے جان بوجھ کر قائداعظم کی شان میں چوہدری رحمت علی کی انتہائی نازیبا تحریر اورعلامہ اقبال اور قائداعظم کے تصورِ پاکستان کی نفی میں چوہدری صاحب کی ہرزہ سرائی کے اقتباسات انگریزی ہی میں نقل کر دیے تھے- چوہدری رحمت علی وہ شخصیت تھے جنھوں نے ۹جون 1947ءکو The Greatest Betrayal کے عنوان سے اپنے کتابچے میں قیامِ پاکستان کو ”بدترین غداری“سے تعبیر کیا تھا جنرل پرویز مشرف نے یہ کالم پڑھنے کے بعد چوہدری رحمت علی کی میت کو پاکستان لانے اور اُنھیں قومی ہیرو قرار دینے کا فیصلہ یکسر منسوخ کر دیا -چوہدری شجاعت صاحب کو ہدایت کر دی گئی کہ آپ شوق سے یورپ جائیں اور گھوم پھر کر واپس آ جائیں مگر میّت کی پاکستان میں تدفین کی اجازت ہر گز نہیں دی جا سکتی- اِس فیصلے کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ میرے خیالات اور تاثرات کی اشاعت کیخلاف شکایات صدرِ مملکت کے دفتر پہنچنے لگیں- شکایت کنندگان کا استدلال یہ تھا کہ یہ شخص مقتدرہ قومی زبان کا چیئرمین ہوتے ہوئے بھی سیاسی موضوعات پر مسلسل لکھ رہا ہے اِسے لگام دی جائے- اِن شکایات کے جواب میں سرکاری ردِعمل حیران کُن تھا- کہا گیا کہ یہ تحریریں ایک چیئرمین کی نہیں بلکہ ایک دانشور کی ہیں اور دانشوروں کو اظہار کی مکمل آزادی حاصل ہے- اِس لیے اِن میں سے کسی تحریر پر بھی کوئی گرفت ممکن نہیں-یہاں جو امر انتہائی قابلِ غور ہے وہ یہ کہ ایک فوجی جرنیل توقومی طرزِ فکر و احساس میں سرشار ہے مگر جمہوری عمل کے ذریعے مسندِ اقتدار پر فائز ہونیوالے ہمارے سیاستدان ذات برادری کی چوہدراہٹ کے زنداں میں اسیر ہیں- علامہ اقبال نے بڑے درد و کرب میں کہا تھا:
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے؟
اِس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام
آج یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ شعر ہمارے مروّجہ سیاسی جمہوری نظام کے قائدین پر صادق آتا ہو-بات یہ ہے کہ قومی حمیّت اور سیاسی بصیرت پر کسی ایک طبقے کی اجارہ داری ممکن نہیں-
یہاں مجھے فرانس کے ایک سابق صدر جنرل چارلس ڈیگال یاد آتے ہیں - اِنکے دورِ صدارت میں الجزائر کی جنگِ آزادی کو انتہائی سفاکی کے ساتھ کچلنے کی کوشش مسلسل جاری تھی کہ فرانس اور دُنیا کے ایک عظیم ادیب ژاں پال سارترتونے اپنی حکومت کیخلاف اور الجزائر کے حریت پسندوں کے حق میں مظاہروں کی قیادت شروع کر دی- جب اِن احتجاجی مظاہروں نے حکومت کا ناک میں دم کر دیا تو کابینہ کے ایک اجلاس میں اِن سے نبٹنے کا موضوع زیرِ بحث آیا- اِس بحث کے دوران ایک وزیر نے یہ رائے دی کہ سارترتو کو گرفتار کر لیا جائے- اِس پر جنرل چارلس ڈیگال نے کہا کہ سارتر تو تو فرانس میں ہے میں فرانس کو کیسے جیل میں ڈال دوں؟ یاد رہے کہ وزیرِ موصوف سولین تھے اور چارلس ڈیگال ایک ریٹائرڈ فوجی جرنیل تھے!

فتح محمد ملک ....دنیائے اسلام

ای پیپر دی نیشن