صدر مملکت ممنون حسین نے انتخابی فہرستوں اور حلقہ بندیوں سے متعلق دو اہم آرڈیننس جاری کر دئیے ہیں جس کے بعد انتخابی فہرستوں کی تیاری اور حلقہ بندیوں میں تبدیلی کا اختیار الیکشن کمیشن کو منتقل ہو گیا ہے۔ صدر نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ متذکرہ دونوں کام مکمل کرکے بلدیاتی انتخابات کا جلد انعقاد ممکن بنایا جائے۔ آئین اور جمہوریت کی پاسداری کے داعی حکمرانوں کی جانب سے قوم، عدلیہ اور دوسرے متعلقہ اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر آئین اور جمہوریت کی عملداری سے کس طرح انحراف کیا جاتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کا ایشو اس کی واضح مثال ہے کہ گزشتہ سات سال سے سابقہ ہی نہیں موجودہ حکمران بھی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں اور جمہوریت کی تکمیل کے اس لازمی آئینی تقاضہ پورا کرنے سے مسلسل انحراف کیا جا رہا ہے۔ اگر بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں امن و امان کی صورتحال کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہی الیکشن کمیشن کے دئیے گئے شیڈول کے مطابق بلدیاتی انتخابات کرائے جا سکتے ہیں تو دیگر صوبوں میں بھی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہئے تھا مگر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبر پی کے میں تحریک انصاف کی حکومتوں نے دانستہ طور پر حیلے بہانے تراش کر بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کی اور اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کے احکام کو بھی پیش نظر نہ رکھا گیا جبکہ الیکشن کمیشن نے بھی بعض قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر بلدیاتی انتخابات سے فرار کی حکومتی سوچ کو تقویت پہنچائی۔ اب عمران خاں نے 15 نومبر کو خیبر پی کے میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بلدیاتی انتخابات سے پہلے مردم شماری کے تقاضے کے پیش نظر اس سال بھی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نظر نہیں آتا۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں بلدیاتی انتخابات کے لئے قانون سازی کرکے اگرچہ صدر مملکت کے دستخطوں کے ساتھ انتخابی فہرستوں اور حلقہ بندیوں سے متعلق آرڈیننس جاری کر دئیے گئے ہیں اس کے باوجود بلدیاتی انتخابات کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا جبکہ آئینی تقاضے کے مطابق بلدیاتی نظام کا تسلسل برقرار رکھ کر ہی جمہوریت کے ثمرات سے عوام کو مستفید کیا اور سسٹم کو مستحکم بنایا جا سکتا ہے۔ اب بھی بہتر یہی ہے کہ حکومت اپنے مفادات کی خاطر بلدیاتی انتخابات سے گریز کی پالیسی ترک کر دے اور متعلقہ آئینی شق کے علاوہ سپریم کورٹ کے احکام پر عملدرآمد بھی یقینی بنائے تاکہ روزمرہ کے گھمبیر مسائل کا شکار عوام کو فوری دادرسی کے لئے مجاز فورم دستیاب ہو سکے۔