پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان ایک متوازن ذہن اور دھیمے مزاج کے پرخلوص سیاست دان تھے اور دل آویز شخصیت کے مالک ۔ قائداعظم کے انتقال کے بعد انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت اور اپنے عزم واستقامت سے ملک کو سنبھالا اور دستور ساز اسمبلی سے قرار داد مقاصد منظور کروا کے پاکستان کے آئین کو کتاب وسنت کا پابند کیا،شہادت ان کا مقدر تھی۔
لیاقت علی خاں یکم اکتوبر 1895ء کو کرنال میں نواب رستم علی خاں کے گھر پیدا ہوئے، وہ نواب صاحب کے دوسرے فرزند تھے، ان کے والد کی زمینیں پنجاب اور یوپی (اترپردیش) میں پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کا بچپن یوپی میں گزرا جو اس وقت مسلم ثقافت کا بڑا مرکز تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ میٹرک کرنے کے بعد وہ ایم اے او کالج علی گڑھ میں داخل ہوئے۔ 1918 ء میں ان کی شادی جہانگیرہ بیگم سے ہوئی جس سے ان کا بیٹا ولایت علی خاں پیدا ہو۔ 1919ء میں علی گڑھ کالج سے جو اس وقت الہ آباد یونیورسٹی سے ملحق تھا۔ بی اے کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے وہاں انہوں نے 1921ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور 1922ء میں ’’انزٹیمپل‘‘ لندن یونیورسٹی سے بارایٹ لا کی سند۔ بیرسٹر بننے کے بعد وہ ہندوستان واپس آئے اور چند ہی ماہ بعد مسلم لیگ میں شامل ہو کر اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا، وہ اپنے دور کے ایک ایسے مسلم رہنما تھے جو کبھی کانگریس میں شامل نہیں ہوئے۔ وجہ اس کی یہ تھی 1922ء میں تحریک خلافت اپنے عروج پر تھی اور یہ محسوس ہوتا تھا کہ مسلمانوں کے نقطہ نظر سے بین الاقوامی سیاست پر اس کے مثبت اثرات ہوں گے۔
لیاقت علی خاں نومبر 1936ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے اور ایک مختصر مدت کے سوا قیام پاکستان تک اس عہدے پر فائز رہے، 1940ء میں انہیں مرکزی اسمبلی میں مسلم لیگ پارٹی کا ڈپٹی لیڈر چن لیا گیا۔ محمد علی جناح، لیگ گروپ کے لیڈر تھے۔ 1940ء کے بعد اپنی بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے وہ اسمبلی کے اجلاس میں کم شرکت کرتے تھے۔ اس لئے عملی طور پر لیاقت علی ہی اپنے گروپ کے قائد تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے تحریک پاکستان کے سلسلے میں اگست 1942 سے اپریل 1943 تک 14 ہزار میل کا سفر کیا۔ مارچ 1940ء میں لاہور میں مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس ہوا جس میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی اور جہاں قائداعظم اور دیگر مسلم رہنمائوں نے اپنی خطابت کے جوہر دکھائے۔ لیاقت علی خاں نے مسلمانوں کے نئے ملک کے بارے میں مندوبین کو مطمئن کیا۔ 1943ء میں مسلم لیگ کے کراچی کے اجلاس میں قائداعظم نے کہا ’’لیاقت علی خاں میرا دایاں بازو ہیں‘‘۔ انہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں دن رات ایک کر کے کام کیا ہے اور شاید کسی کو اندازہ نہیں کہ انہوں نے کتنی بھاری ذمے داری سنبھالی ہوئی ہے۔ سب مسلمان ان کی عزت کرتے اور ان پر اعتماد کرتے ہیں ۔ وہ اگرچہ نواب زادہ ہیں لیکن عام انسانوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ دوسرے نواب بھی ان کی پیروی کریں گے۔‘‘ وہ اپنے یا کسی اور کے اختلاف رائے سے قائداعظم کو آگاہ کر دیتے تھے لیکن عمل وہ جناح کے فیصلے پر کرتے تھے۔ جیسا کہ قائداعظم نے کہا تھا وہ ان کا دایاں بازو تھے لیکن دماغ نہیں۔ قائداعظم نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے طور پر لیاقت علی خاں کو چنا اور اس اعزاز میں کوئی ان کی برابری نہ کر سکا۔ 15 اگست 1947ء کو انہوں نے حلف اٹھایا۔ وہ تقریباً چار سال پاکستان کے وزیراعظم رہے۔ 15 اگست 1947ء سے 16 اکتوبر 1951ء تک قائداعظم کی وفات پر پاکستان ایک نازک دور میں داخل ہو گیا تھا۔ ہندوستان نے حیدرآباد دکن کی ریاست پر قبضہ کر لیا۔ اس مشکل دور میں جب ہندوستان ہر قسم کی حرکت کے لئے تیار تھا، وہ پاکستان کی سلامتی کے محافظ رہے۔ اکتوبر 1948ء میں وزرائے اعظم کی کانفرنس میں شرکت کے لئے وہ انگلستان گئے۔ وہاں انہوں نے ایک ہوٹل میں لارڈ ویول کی دعوت کی جس میں ان دونوں کے علاوہ صرف پاکستان کے ہائی کمشنر حبیب ابراہیم رحمت اللہ شریک ہوئے ۔ ویول لکھتے ہیں کہ لیاقت علی تقریباً 3 گھنٹے مسلسل بولتے رہے وہ بڑی اچھی فارم میں تھے۔ صحت مند دکھائی دیتے تھے اور ان کا رویہ بہت دوستانہ تھا۔ لیاقت کی بادشاہ سے بھی طویل ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے بادشاہ کو باخبر اور دوستانہ رویہ کا حامل بتایا۔ ہم نے کشمیر کی بات کی لیاقت کے خیال میں ہندوستان سے اچھے تعلقات کی راہ میں صرف یہی ایک رکاوٹ ہے۔ نہرو سے بحث کا کچھ نتیجہ نکلا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان سے کشمیر کے الحاق کو پاکستان کبھی قبول نہیں کرے گا۔ مائونٹ بیٹن کے بارے میں لیاقت بہت تلخ تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے وزراء کچھ زیادہ تیز نہیں لیکن وہ دیانتدار لوگ ہیں۔ انہوں نے بالکل صحیح کہا کہ پاکستان کو اپنے آپ پر اعتماد ہے۔ وہ قائم رہے گا۔
قیام پاکستان کے وقت ، لیاقت علی خاں کی ہندوستان میں گراں قدر جائیداد تھی لیکن پاکستان آ کر انہوں نے کوئی جائیداد حاصل نہ کی حتیٰ کہ معاوضے کا کلیم داخل کرنے پر بھی راضی نہ ہوئے۔
11 ستمبر 1948ء کو قائداعظم وفات پا گئے۔ ان کی وفات پر لیاقت علی خاں نے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا: مجھے اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ تاریخ قائداعظم کا شمار دنیا کی عظیم ہستیوں میں کرے گی۔ دنیا میں کم آدمیوں کو یہ نصیب ہوا کہ وہ ایک عظیم الشان کام کو ہاتھ میں لیں اور اپنی ہمت، عزم اور دانش سے اس کو اپنی زندگی ہی میں پروان چڑھتا دیکھیں۔ قائداعظم نے نہ صرف پاکستان کا نصب العین مسلمانوں کے سامنے پیش کیا بلکہ اسکے لئے جدوجہد کر کے دنیا میں سب سے بڑی ریاست قائم کر دی۔ قائداعظم ان برگزیدہ ہستیوں میں سے تھے جو دنیا میںکبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں۔ اپنی تمام سیاسی زندگی میں انہیں ملت اسلامیہ کی بہبود منظور تھی اور وہ اسی کے لئے کوشاں رہے۔ لیاقت علی خاں کے دور کا سب سے اہم کارنامہ ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی منظوری ہے۔ پاکستان 14 اگست 1947ء کو وجود میں آ گیا تھا اس کا آئین بھی تیار نہیں ہوا تھا۔ مسلمانوں کا یہ تقاضا تھا کہ اس ملک میں اسلامی صولوں پر آئین بنایا جائے۔ چنانچہ اس سلسلے میں مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور دیگر علمائے کرام کی متفقہ کوشش سے لیاقت علی خاں نے 7 مارچ 1949ء کو دستور ساز اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی جسے ’’قرارداد مقاصد‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ قرارداد 12 مارچ 1949ء کو منظور کی گئی۔ اس کے مطابق ساری کائنات پر حاکمیت کا حق بلاشرکت غیرے اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور اس نے جمہور کی وساطت سے مملکت پاکستان کو اختیار حکمرانی اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کے لئے نیابتہً عطا کیا ہے۔ اس لئے دستور ساز اسمبلی آزاد و خود مختار مملکت پاکستان کے لئے ایک ایسا دستور مرتب کرے۔ جس میں اصول جمہوریت و مساوات او رواداری او عدل عمرانی کو جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے۔ جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق جو قرآن مجید اور سنت رسول میں متعین ہیں ڈھال سکیں۔
16 اکتوبر 1951ء کو وہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لئے کراچی سے روانہ ہوئے گھر سے روانہ ہوتے وقت ان کے بیٹے اکبر اور اشرف سکول جا رہے تھے۔اکبر نے کہا : ڈیڈ ہم آپ کے ساتھ پنڈی چلیں گے۔ انہوں نے کہا: نہیں ، تم اپنے سکول جائو گے۔ راولپنڈی میں چار بجے کے قریب وہ جلسہ گاہ پہنچے اور چند منٹ بعد تقریر کے لئے کھڑے ہوئے۔ ابھی انہوں نے صرف برادران ملت ہی کہا تھا کہ سید اکبر نامی ایک شخص نے ان پر پستول سے فائر کئے۔ دو گولیاں ان کے سینے میں لگیں اور خون بہنے لگا ان کے پولیٹیکل سیکرٹری ان کے پیچھے تھے۔ انہوں نے سہارا دیا۔ لیاقت علی خاں نے نحیف آواز میں کہا: مجھے گولی لگ گئی ہے۔ اس کے بعد کلمہ پڑھا اور کہا کہ ’’خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔‘‘ اس کے بعد وہ بے ہوش ہو گئے۔ انہیں فوراً کمبائنڈ ملٹری ہسپتال پہنچایا گیا جہاں جسم میں خون پہنچائے جانے کے باوجود وہ فوت ہو گئے۔ شہادت پاکستان کے پہلے وزیراعظم کا مقدر تھی۔ ان کی وفات پر تمام ملک سوگوار تھا۔ انہیں کراچی میں قائداعظم کے پہلو میں دفنایا گیا آج تک ان کے قتل کا سراغ نہیں مل سکا۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
وزیراعظم لیاقت علی خاں کا قتل پاکستان میں سیاسی استحکام کے خلاف پہلی سازش تھی۔ مجرموں کا سراغ لگا کر انہیں سزا دینے میں جو غفلت برتی گئی، اس سے آئندہ کے لئے بھی سازشی افراد کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اسی وجہ سے آج ہم دہشتگردی کی انتہاء کوپہنچ گئے ہیں۔