اسلام آباد (نیٹ نیوز/ بی بی سی) مسلم لیگ (ن) کی وفاقی وزرا کے درمیان ترقیاتی منصوبوں اور مختلف مسائل پر تنازعات کی خبریں اب ایوان کی سرحد عبور کرکے اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔ بی بی سی کے مطابق وزرا کے درمیان کشیدگی اب ڈھکی چھپی بات اس لئے بھی نہیں کہ بعض وزرا نے کھلے عام ایک دوسرے پر تنقید کرنا شروع کردی ہے۔ لوڈشیڈنگ کو چند ماہ میں ختم کرنے جیسے انتخابی نعروں، وعدوں پر اقتدار میں آنے والی مسلم لیگ (ن) کے وزراءمیں پائے جانے والے اختلاف کا اثر اب ترقیاتی منصوبوں پر بھی پڑنا شروع ہو گیا ہے۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے توانائی کے اہم منصوبوں میں تاخیر کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر اُس دور میں منصوبہ بندی کمشن ہوتا تو شاہ جہاں بادشاہ کبھی تاج محل تعمیر نہ کر پاتا۔ اس بیان کے دو دن بعد منصوبہ بندی کمشن نے کہا کہ بعض وزارتیں ترقیاتی منصوبوں کی کڑی چھان بیان سے پریشان ہیں لیکن اُن کی پریشانی سے پلاننگ کمشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ نندی پور پاور پلانٹ سے بجلی بننے کے ناکام تجربے نے یہ تو واضح کردیا کہ پنجاب حکومت اور وفاقی وزارت پانی و بجلی دو الگ سمتوں میں کام کررہی ہیں۔ اسی طرح توانائی کی قلت دور کرنے کے لئے مائع قدرتی گیس یا ایل این جی کی درآمد کے منصوبے پر وزیر توانائی شاہد خاقان عباسی اور وزیراعظم کے رشتہ دار ایک اہم وفاقی وزیر کے درمیان سرد مہری بھی زبان زد عام ہے۔ خواجہ آصف نے حال ہی میں ٹی وی پر کہا کہ گزشتہ تین ماہ سے ان کا وزیر داخلہ چودھری نثار سے کوئی رابطہ نہیں جس کے بعد وزیر داخلہ نے کہا کہ انہیں فوج اور جی ایچ کیو سے رابطہ کرنے کیلئے وزارت دفاع کی ضرورت نہیں۔ وزیروں نے باہمی تنازعات کو کھلے عام کیوں بیان کیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں وزرا کے درمیان اختلافات معمول کی بات ہے۔ اپنے اپنے مفاد اور ذاتی اختلافات کی بنا پر وزرا کے درمیان ناراضی عام بات ہے لیکن یہ ناراضی عموماً میڈیا سے چھپائی جاتی ہے اور عوامی مقامات پر اس کا برملا اظہار نہیں کیا جاتا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) دانستہ طور پر اپنے اندرونی اختلافات میڈیا پر لانا چاہتی ہے تاکہ میڈیا میں چلنے والی خبروں کا رخ بجلی کے بحران یا دیگر مسائل سے ہٹا کر دوسری طرف کیا جائے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ اس میں تیسری طاقت کا عنصر بھی ہو سکتا ہے لیکن جس انداز سے میڈیا پر وفاقی وزرا ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں وہ کسی مربوط حکمت عملی کا نتیجہ لگتا ہے اگر انہیں تیسری قوت کا خطرہ ہوتا تو میڈیا پر زیادہ اتحاد کا مظاہرے کرتے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں اختلاف کو عیاں کرنے کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ایسے وقت میں جب فوج دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے تو جمہوری حکومت کو بھی چاہئے کہ ہم آہنگی کا مظاہرہ کرے تاکہ ملکی مسائل کے حل میں عوام اپنے جمہوری قائدین کو اور اُن کی کوششوں کو سنجیدہ تصور کریں۔
وزرا/ بی بی سی