امریکہ‘ برطانیہ مسئلہ کشمیر کے حل کرانے کا وعدہ کر کے مکر گئے‘ ایوب 62ءمیں حملہ کرتے تو بھارت چت ہو جاتا : بروس ریڈل

واشنگٹن (نیٹ نیوز+ بی بی سی) سی آئی اے کے سابق اہلکار بروس ریڈل نے اپنی تازہ کتاب میں کہا ہے کہ 1962ءمیں چین بھارت جنگ کے دوران پاکستان بھارت پر حملے کی بہترین پوزیشن میں تھا، امریکہ نے روکا تو ایوب خان نے کشمیر مانگ لیا نہ صرف امریکہ بلکہ برطانیہ نے بھی بھارت پر دباﺅ ڈالنے کا وعدہ کرلیا مگر سیز فائر کے بعد وہ دونوں مکر گئے۔ سابق صدر ایوب خان نے 1962ءمیں بھارت پر حملے کا موقع ضائع کردیا، ایسا حملہ جو بھارت کو چاروں شانے چت کردیتا، ایسا حملہ جو بھارت کی نبض پر ہاتھ رکھ دیتا، ایسا حملہ جس کے بعد بھارت کشمیر بھی دینے پر راضی ہو جاتا لیکن پاکستان نے ایسا نہیں کیا اور امریکہ کی طرف سے کشمیر کے معاملے پر بھارت پر دباﺅ ڈالنے کی یقین دہانی پر حملہ نہیں کیا۔ کتاب کے مطابق 1962ءمیں جب چین نے بھارت پر حملہ کیا تو اس وقت پاکستان بھی بھارت پر پوری طرح حملے کی پوزیشن میں تھا۔ اس ممکنہ حملے کو روکنے کیلئے امریکہ نے پاکستان سے رابطہ کیا تو صدر ایوب خان نے حملہ نہ کرنے کیلئے امریکہ کے سامنے یہ شرط رکھ دی کہ کشمیر پاکستان کے حوالے کردیا جائے۔ اس شرط کو امریکہ نے اپنے لیے بلیک میلنگ تصور کیا اور پاکستان کو جواب دیا کہ چین بھارت جنگ کے خاتمے پر بھارت پر دباﺅ ڈالا جائے گا لیکن جنگ ختم ہوتے ہی امریکہ کا رویہ پھر پاکستان کے ساتھ بدل گیا اور اس نے پاکستان کو جواب دیا کہ بھارتی وزیراعظم نہرو اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اپنی حکومت کی طرف سے کشمیر پر کوئی فیصلہ کر سکیں۔ کتاب کے مطابق صدر ایوب خان نے 1962ءمیں بھارت چین جنگ کے دوران بھارت پر حملہ نہ کرنے کے بدلے میں امریکہ سے کشمیر کا مطالبہ کیا تھا۔ 30 برس تک سی آئی اے کے ساتھ کام کرنے والے اور چار امریکی صدور کے مشیر رہنے والے ریڈل نے اپنی کتاب ’JFK's Forgotten Crisis‘ میں لکھا ہے کہ 1962ءمیں پاکستان پوری طرح سے حملہ کرنے کی حالت میں تھا بھارتی فوج چین اور پاکستان کے اس دو طرفہ حملے سے پارہ پارہ ہوجاتی۔ ریڈل کے مطابق اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے ممکنہ پاکستانی حملے کو روکنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ صدر کینیڈی اور برطانیہ کے وزیراعظم ہیرلڈ میکملن نے پاکستان پر یہ کہہ کر سخت دباو¿ ڈالا کہ اگر اس نے حملہ کیا تو اسے بھی چین کی طرح ہی حملہ آور ملک قرار دیا جائے گا۔ پاکستان کا موقف تھا کہ چین اور بھارت کے درمیان جنگ سرحد کی جنگ ہے اسے سرد جنگ اور کمیونزم سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہیے لیکن امریکہ اسے ایک کمیونسٹ طاقت کی طرف سے جمہوری ملک پر حملے کی طرح دیکھ رہا تھا۔ ان دنوں بھارت میں امریکی سفیر جان گیلبریتھ کے مطابق صدر ایوب خان امریکی مشورے کے بالکل خلاف تھے مگر جب ان سے کہا گیا کہ صدر کینیڈی ایک خط لکھ کر ان سے یہ گزارش کریں گے تو وہ سننے کو تو تیار ہوگئے مگر ساتھ ہی انہوں نے شرط رکھی کہ ’اس کے بدلے امریکہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے خلاف سخت رویہ اپنانے کا وعدہ کرے۔‘ گیلبریتھ کی ڈائری کے حوالے سے ریڈل نے لکھا ہے: یہ ایک طرح سے پاکستانی بلیک میلنگ تھی۔‘ غور طلب بات یہ ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان جنگ ایسے وقت پر ہو رہی تھی جب امریکی صدر کینیڈی روس کے خلاف کیوبا میزائل بحران سے نبرد آزما تھے اس کے مقابلے میں بھارت اور چین کی اس کشیدگی پر واشنگٹن میں بہت کم توجہ دی جا رہی تھی۔ ریڈل کے مطابق اس معاملے میں کینیڈی کے معتمد مشیر سفیر گیلبریتھ ہی تھے جو نہرو کے اتنے قریب سمجھے جاتے تھے کہ بہت سے لوگ انہیں نہرو کا مشیر کہنے لگے تھے۔ کتاب کے مطابق ایوب خان نے اس بات پر ناراضی بھی ظاہر کی کہ امریکہ نے پاکستان کو بتائے بغیر بھارت کو چین کے خلاف ہتھیار فراہم کیے۔ ایوب خان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ ہوئے اس سمجھوتے کو توڑا ہے جس میں اس نے 1961ءمیں کہا تھا کہ چینی حملے کے باوجود امریکہ بھارت کو پاکستان کی منظوری کے بغیر فوجی امداد نہیں دے گا۔ 1962ءمیں پاکستان کے حملہ نہ کرنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ امریکہ اور برطانیہ کو ناراض کرکے پاکستان بالکل تنہا پڑ جاتا اور چین پر اس وقت کوئی یقین نہیں کر سکتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ جنگ کے بعد وہ بھارت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل نکالیں گے۔ لیکن جنگ کے بعد جب ایوب خان نے اس کا مطالبہ کیا تو امریکی سفیر گیلبریتھ نے واشنگٹن کو جواب دیا کہ چین سے شکست کے بعد نہرو بالکل ٹوٹ چکے ہیں مقامی سیاست میں ان کی ساکھ اس وقت ایسی نہیں کہ وہ کشمیر جیسے معاملے پر کوئی اہم فیصلہ کر سکیں۔ ریڈل نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت کے خلاف 1965ءکی جنگ ایوب خان نے اپنے بل پر شروع کی تھی لیکن اس کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ وہ امریکی ہتھیار بنے جو امریکہ نے بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنے کے لئے دیئے تھے۔ ریڈل کا کہنا ہے کہ 1962ءکے بعد ایک طرح سے پاکستان میں یہ بات گھر کر گئی تھی کہ پاکستان جس طرح کی شراکت چاہتا ہے اس کے لئے چین امریکہ سے کہیں زیادہ بہتر ثابت ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی انہیں شاید یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ 1965، 1971 اور 1999 کی کسی بھی جنگ میں چین پاکستان کا ساتھ دینے نہیں آیا۔ چین اپنے ملک کے فائدے کو ترجیح دیتا ہے۔‘ اس جنگ میں نہرو نے کینیڈی کو خط لکھ کر چین کے خلاف مدد مانگی تھی ریڈل کے مطابق کینیڈی کے لئے وہ ایک بڑے فیصلے کی گھڑی تھی اور شاید امریکہ اس جنگ میں کود بھی پڑتا لیکن اس سے پہلے کہ کینیڈی کوئی فیصلہ کرتے چین نے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ ریڈل کا کہنا ہے کہ اس بارے میں اب تک کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں کہ اس کی وجہ کیا تھی کیونکہ چین نے اس بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کی۔
بروس ریڈل

ق

ای پیپر دی نیشن