نیشنل ایکشن پلان کے مقاصد پانے کیلئے غیر قانونی این جی اوز کو روکنا ہو گا‘ ریاستی ادارے حریف نہیں معاون ہوتے ہیں : چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ آن لائن) سپریم کورٹ میں ملکی غیر ملکی این جی اوز کی مانیٹرنگ سے متعلق سوموٹو کیس کی سماعت میں عدالت نے وفاق اور صوبوں سے دو ماہ کے اندر این جی اوز کی فنڈنگ آمدن و خرچ کی تفصیلات پر مبنی رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ نیشل ایکشن پلان کے تحت اقدامات کی یہ رپورٹس سیکرٹری لاءاینڈ جسٹس کمشن کو بھی فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مو¿ثر چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے غیر قانونی کاموں میں ملوث ا ین جی اوز کی مشروم گروتھ کو روکنا ہے تب ہی نیشنل ایکشن پلان کے مقاصد حاصل ہوسکیں گے۔ سیکرٹری لاءاینڈ جسٹس کمشن سرور خان نے عدالت کو بتاےا کہ وفاق اور صوبوں کی جانب سے اس حوالے سے جو معلومات فراہم کی گئیں وہ ناکافی ہیں، عدالت این جی اوز کو بنےادی ڈیٹا فراہم کرنے کی اجازت دے جس کے بغیر مانیٹرنگ اینڈ ویلوایشن رپورٹ تےار نہیں کی جاسکتی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو کچھ چاہئے وہ سیکرٹری خود بھی ڈیمانڈ کرسکتے ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پنجاب میں39740 این جی اوز ہیں جبکہ ان میں دینی مدارس بھی شامل کریں تو یہ تعداد 47403 ہوجاتی ہے، سندھ میں 60150، بلوچستان میں 2766 ہیں، نوٹس جاری کرکے تین ماہ کے لئے ان این جی اوز کے لائسنس معطل کردیئے ہیں۔ وزارت داخلہ کو بتا دےا گےا ہے جو این جی او متعلقہ معلومات فراہم کرے گی صرف اس کی رجسٹریشن کی جائے گی، ابھی تک این جی اوز والوں نے رابطے نہیں۔ خیبر پی کے میں 10ہزار سے زائد این جی اوز ہیں۔ اسلام آباد میں 1427 این جی اوز رجسٹرڈ ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ این جی اوز کو بھی ضابطوں کے اندر لایا جائے، جسٹس عمر عطا نے کہا کہ این جی اوز کی رجسٹریشن کے لئے ٹمپلیٹ مطلوبہ کوائف فارم کا نمونہ کی ضروت ہوگی تو سرور خان نے کہا کہ وہ جلد ہی اس حوالہ سے ٹمپلیٹ عدالت میں پیش کردیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہاں پر حکومت کے معاملات کو کنٹرول کرنے کے لئے نہیں بیٹھے، آپ اس حوالہ سے خود ہی مجاز اتھارٹی سے رابطہ کریں۔ آن لائن کے مطابق این جی اوز کے مقدمے میں حکومت نے تفصیلی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ حکومت پنجاب نے مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ وفاقی حکومت کو حل کرنے کی استدعا کی تھی اور اس حوالے سے وفاقی حکومت نے کمیٹی بھی قائم کی تھی جس نے مدارس کے بارے میں معاملہ تاحال روک رکھا ہے۔ 63 کالعدم تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی ہے جن میں جماعت الدعوة، الاختر ٹرسٹ اور الرشید ٹرسٹ بھی شامل ہیں۔ سیو چلڈرن، یو ایس اے بہاولنگر سمیت 53 تنظیموں کو متنازعہ قرار دیا گیا ہے۔
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت لائن) چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ریاست کے مختلف ستونوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کیلئے آئین پاکستان میں اختیارات کی تقسیم کا اصول وضع کیا ہے۔ تمام اداروں کا مختلف کردار ہے‘ ریاستی ادارے کچھ بھی ہوجائے ایک دوسرے کے مقابل نہیں آتے‘ عدالتی سال 2014-15 ءکے دوران 15177 مقدمات نمٹائے گئے ہیں زیر التوا مقدمات کی تعداد 26281 ہے جس میں 2366 مقدمات کا اضافہ ہوا ہے۔ مقدمات نمٹانے کے حوالے سے ہماری کوشش تاحال اطمینان بخش نہیں ہے۔ نیشنل سکول آف پبلک پالیسی کے شرکاءسے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ انصاف کی فراہمی میں تیزی سے سرگرداں ہے۔ سول انتظامیہ ریاست کے جدید نظام حکومت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، یہ ملک کو لیڈرشپ‘ کمانڈ اینڈ کنٹرول‘ آئین و قانون کیلئے پالیسی دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے سول سوسائٹی ان مقاصد کے حصول سے کوسوں دور ہے‘ ابھی تک کارکردگی متاثر کن نہیں۔ بدعنوانی‘ سیاسی مداخلت اور احتساب کی کمی اس کی وجہ ہے۔ آپ کو موقع مل رہا ہے آپ ماضی اور مستقبل کا موازنہ کریں۔ عوامی نمائندے سیاسی انتظامیہ کے تحت نہیں ہوتے کئی بار ان پر قانون سے ہٹ کر اقدام کرنے پر دباﺅ ڈالا گیا۔ انہیں ان تمام دباﺅ سے بالاتر ہوکر اپنے فرائض سرانجام دینا چاہئیں۔ دباﺅ کا شکار ہونے والی بیورو کریسی حکومت اور انتظامی طور پر عوامی اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی۔ اچھی حکمرانی ایماندار اور مضبوط بیوروکریسی پر منحصر ہے۔ منتخب عوامی نمائندوں کا انتظامی اداروں کے ساتھ زیادہ تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ سرکاری افسر اپنے اعلیٰ افسروں کے صرف ان احکامات کی بجا آوری کے پابند ہیں جو قانون کے مطابق ہوں ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ادارے کے حکام اپنے کئے کے ذمہ دار ہیں۔
چیف جسٹس

ای پیپر دی نیشن