یہ حساب کرنے کا وقت ہے؟

اوکاڑہ سے بہت بڑی اکثریت سے جیتنے والے آزاد امیدوار ریاض الحق جج کو نواز شریف اور عمران خان دونوں نے مبارکباد دی ہے اور دعوت دی کہ ان کی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائے۔ یہ بڑی شرمناک بات ہے۔ دونوں نے اپنے ہارنے کا احساس نہیں کیا۔ ریاض صاحب کو بھی ہمت اور حمیت سے کام لینا چاہیے اور دونوں جماعتوں میں سے کسی میں شمولیت اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ جن لوگوں نے اسے ٹکٹ کے قابل نہیں سمجھا ان سے مزید کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن سرکاری جماعت ہے۔ شاید ریاض صاحب کو کچھ فائدہ ہو جائے۔ تحریک انصاف کے لیے بھی کہتے ہیں کہ اقتدار میں ضرور آئے گی۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے سیاستدانوں کو ایسی ہی پارٹیاں اچھی لگتی ہیں۔ وہ لوٹے بنتے ہی اس لیے ہیں۔ مسلم لیگ کے ٹکٹ ہولڈر اور تحریک انصاف کے امیدوار دونوں کو کم از کم احتجاج کرنا چاہیے۔ اس کی کم سے کم صورت یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت سے استعفیٰ دے دیں۔ یہ ہارنے سے بھی زیادہ توہین آمیز ہے۔ نواز شریف نے کھلے دل سے تسلیم کیا ہے کہ ہم نے اوکاڑہ میں غلط آدمی کو ٹکٹ دیا ہے۔ وہ جیتنے والے ریاض صاحب کو ہی اپنا آدمی سمجھتے ہیں تو پھر اسے ٹکٹ کیوں نہ دیا۔
ہارا ہوا امیدوار بھی پارٹی لیڈر کو عزیز ہونا چاہیے۔ عمران خان نے اپنے کزن انعام اللہ خان کو میانوالی سے ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ کہ اس کے لیے اندیشہ تھا کہ وہ ہار جائے گا اور ڈاکٹر شیر افگن کے بیٹے کو ٹکٹ دے دیا جو چند دن پہلے تحریک انصاف میں شامل ہوا تھا۔ وہ مقدمات اب بھی موجود ہیں جو ڈاکٹر شیر افگن نے عمران خان کے خلاف کیے ہوئے ہیں۔
اوکاڑہ میں پیپلز پارٹی کے لوٹے اشرف سوہنا کی ضمانت ضبط ہو گئی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں تو اوکاڑہ سے ممبر اسمبلی منتخب ہو چکا ہوں۔ اب صرف عمران خان کی وجہ سے ہار گیا ہوں۔ 122 میں بھی کسی کو تحریک انصاف کے جیتنے والے شعیب صدیقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ صرف ہارنے والے عبدالعلیم خان قابل ذکر ہیں کہ انتخابی معرکہ آرائی علیم کی وجہ سے بنی ہے۔ شعیب صدیقی نے بڑی بات کی ہے کہ میں عبدالعلیم خان کی وجہ سے جیتا ہوں۔ نجانے عمران نے کیسے کہہ دیا۔ اسے یہ بات کرنا نہیں چاہیے تھی کہ میں 122 سے کھڑا ہوتا تو جیت جاتا جبکہ 2013ء کے الیکشن میں وہ ایاز صادق سے جتنے ووٹوں سے ہارے تھے اس سے آدھے ووٹوں سے عبدالعلیم خان ہارا ہے۔ اسے شکست فاتخانہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ تو ہوا اور اچھی بات ہے کہ عمران خان نے اعتراف کیا اور عبدالعلیم خان کی تعریف کی۔ اس نے خوب مقابلہ کیا۔
کچھ تعریف بے چارے شعیب صدیقی کی بھی کرو۔ اس سے تو اچھی بات مریم نواز نے کی ہے اور ایسا ہمارے سیاسی کلچر میں نہیں ہوتا۔ مریم نے مسلم لیگ ن کے ہارنے والے محسن لطیف کے حوالے سے کہا ہے کہ عوامی خدمت نہ کرنے کی وجہ سے یہ شکست ہوئی۔ محسن لطیف مناسب امیدوار نہ تھے۔ محسن لطیف کلثوم نواز کے بھتیجے ہیں۔ اور مریم نواز کے کزن ہیں۔ مریم نواز کے بیان سے تسلی ہوئی کہ یہ موروثی سیاست کا دھندہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ گورکھ دھندہ بند ہونا چاہیے۔ مرے خیال میں مریم نواز جو کردار سیاست میں ادا کر رہی ہیں وہ موروثی سیاست کے زمرے میں نہیں آتی۔ ہر جگہ موروثیت کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ سیاست جس کے ورثے میں آئے وہ اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرے۔ یہاں تو روحانی شعبے میں جو لوگ بڑے بڑے اولیائے کرام کی گدی پر قابض ہیں جیسے مخدوم یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شاہ محمود قریشی وغیرہ وغیرہ۔ ان کے لیے علامہ اقبال کے ایک شعر سے اپنی بات واضح کی جا سکتی ہے۔
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
عمران خان پر مسلم لیگی سیاستدان تنقید کرتے رہتے ہیں۔ طلال چودھری اور دانیال عزیز کے ماضی پر پارٹی لیڈر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ سب سے اچھی بات ایک وقار کے ساتھ چودھری نثار نے کی ہے۔ جس میں دلیل بھی ہے اور سچائی بھی ہے۔ ’’ووٹرز کی مرضی کے بغیر حلقہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ عمران اچھا کرکٹر تھا مگر ایک سیاسی لیڈر نہیں ہے۔‘‘ اس کے علاوہ ایک دلچسپ بات بھی چودھری صاحب نے کی۔ ’’کچھ لوگوں کے پاس اتنا فالتو وقت ہے کہ وہ بن سنور کر ٹی وی چینل پر ہر دوسرے دن آ بیٹھے ہیں۔‘‘ چودھری صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ اس میں مسلم لیگ ن کے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ ٹی وی چینلز والے بھی صرف چھ سات لوگوں کو بار بار بلا لیتے ہیں۔ وہ ایک طرح کی باتیں دہراتے چلے جا رہے ہیں۔ ابھی ایک اور بات سنیے۔ وزیر دفاع ’’جو ہے خواجہ آصف‘‘ کے جواب میں چودھری صاحب نے کہا ’’جی ایچ کیو سے رابطے کے لیے وزیر دفاع کا محتاج نہیں ہوں۔ وہ اس معاملے میں وزیراعظم کے بھی محتاج نہیں ہیں۔ بلکہ وہ وزیراعظم کے مددگار ہیں۔
چودھری صاحب ہی کچھ بتائیں کہ وزراء ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیوں ہیں۔ اڑھائی سال سے غائب احمد مختار اچانک منظر عام پر کیسے آئے۔ کہیں سے سازش کی بو آ رہی ہے۔ اسے بدبو بننے سے کون روکے گا۔ ہم تو خوشبو کے لیے ترس گئے ہیں۔ عابد شیر علی کا چودھری شیر علی کی باتوں سے کیا تعلق ہے جو وہ مسلسل رانا ثنااللہ کے خلاف کر رہے ہیں؟
مجھے میانوالی سے فون آتے رہتے ہیں۔ اپنے علاقے کے لوگ محبت کا اظہار کریں تو عجیب سا لطف آتا ہے۔ میانوالی میں آج کل جو ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) ہے۔ سرفراز ورک نجانے ان کا مشہور پولیس افسر ایس ایس پی عمر ورک سے کیا تعلق ہے۔ سرفراز ورک کے لیے بہت تعریف آتی رہتی ہے۔ ایک فون کال ایسی نہیں ہے جس میں ان کے لیے کوئی منفی بات ہو۔ کسی پولیس افسر کے حق میں لوگ دعا کریں تعریف کریں تو حیرت ہوتی ہے۔ وہاں امن و امان قائم کرنے میں انہوں نے بے مثال کارکردگی دکھائی ہے۔ وہ دلیر اور دیانتدار پولیس افسر ہیں۔ وہ کسی وی آئی پی کو اپنے راستے میں نہیں آنے دیتے۔ میانوالی کے ڈی سی او طلعت محمود گوندل کے لیے بھی اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ وہ میانوالی کو خوشحال بنانے میں منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ برادرم سعید اللہ خان نے بھی ان کے لیے تعریف کی ہے۔ میرا خیال ہے کہ کسی ضلع کا ڈی سی او اور ڈی پی او نیک دلی اور دلیری سے کام کریں تو ضلعے کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ 70 سال تک ڈپٹی کمشنر اور ایس پی صاحبان کیا کرتے رہے کہ میانوالی اور اس کے اردگرد پھیلے ہوئے علاقے میں کچھ بھی نہیں بدلا۔

ای پیپر دی نیشن