اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ نے ملک بھر میں ہائی کورٹس اور ٹربیونلز میں زیر سماعت کسٹم اپیلوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ایف بی آر کے تحت کام کرنے والے کسٹم کلکٹرز اور کمشنر ٹربیونل اپیل کو زیر التواء 3350 اپیلیں تین ماہ کے اندر اندر نمٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے رپورٹ عدالت اور وفاقی حکومت کو پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ متعلقہ ادار ے اپنا کام خود نہیں کرتے اور اس کے خلاف ہونے والی مقدمہ بازی کی صورت میں سارا بوجھ عدالتوں پڑ جاتا ہے۔ کسٹم اپیلوں کی تفصیلات پر مبنی رپورٹ میں عدالت کو بتایا گیا کہ ملک بھر میں کسٹم کی کل 12802 اپیلیں زیر التوا ہیں جن میں سے 9452 مقرر مدت کے اندر ہیں جبکہ3350 اپیلیں سماعت کے بغیر ہی زائد ازمعیاد ہو چکی ہیں۔ عدالت نے پچھلی سماعتوں پر اس حوالہ سے سوموٹو لیتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر سے رپورٹ طلب کی تھی۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر کے کمشنر (اپیل) اور کلکٹر (اپیل) بروقت اور طے شدہ میعاد کے اندر اندر اپیلوں پر فیصلے کیوں نہیں کرتے؟ ایک کلکٹر کے پاس 1739 اپیلیں جبکہ دوسرے کے پاس617 اپیلیں زیرالتوا ہیں، اپیل کنندگان میں سے اگر پچاس فیصد بھی ہائی کورٹ میں آجائیں تو بیٹھے بیٹھے ساڑھے 15سو سے زائد مقدمات کا بوجھ عدالت پر پڑ جاتا ہے۔ ایف بی آر کے لاافسر نے بتایا کہ مجاز اتھارٹی نے تاخیر کے ذمہ دار کلکٹرز اور کمشنروں کو شوکاز نوٹسز جاری کرتے ہوئے ان سے اس حوالہ سے وضاحت طلب کر رکھی ہے۔ ملک بھر میں 22 کمشنر (اپیل) اور 3 کلکٹر (اپیل) کام کر رہے ہیں جبکہ کمشنرز کی مزید 6 آسامیاں پیدا کی جارہی ہیں، جس کلکٹر کے پاس 1739 اپیلیں زیرالتوا ہیں، ان کے پاس دوہرا چارج ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کے ان مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، ہماری دلچسپی اس بات میں ہے کہ قانون کے مطابق اپیلیں مقررہ مدت کے اندر اندر نمٹائی جانی چاہئیں مگر ایسا نہیں ہورہا جبکہ قواعدوضوابط کے تحت آپ مقررہ مدت کے اندر اندر ان پر فیصلے جاری کرنے کے پابند ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ یہ 3350 اپیلیں نمٹا دیں تو ان کے حوالہ سے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں دائر مقدمات خود بخود غیر موثر ہو جائیں گے۔نمائندہ نوائے وقت کے مطابق جسٹس انور ظہیر جما لی نے کہا ہے کہ ہر ادارے کا اپنا دائرہ کار اور کردار ہے اختیار اورکام کے لحاظ سے ریاستی ادارے ایک دوسرے کے حریف نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں۔ بیورو کریٹس اور افسران عوام کے خدمت گار ہیں ریاستی اداروں کے درمیان تعلقات آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی کے لئے ہونے چاہیئیں۔ ہر حال میں اداروں کی عزت واحترام کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ترقی پذیر ملک ہے ہم نے کچھ فاصلہ طے کر لیا اور ابھی طویل سفر طے کرنا ہے۔اس عمل میں ہم نے کچھ سبق سیکھا ہے لیکن ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ہمیںاداروں کو مضبوط بنانا چاہیے تا کہ وہ لوگوں کے حقوق کو یقینی بنا سکیں۔ عدالتیں صرف سا ئلین کے مسائل سے آگاہ ہی نہیں ہے بلکہ ان کو حل کر نے کو بھی تیار ہیں۔انصاف فرا ہم کر نا صرف عدالتو ں کا ہی کام نہیں ہے بلکہ حکومت کے دیگر اداروں کو بھی مو ثر کارکردگی دکھا نے کی ضرورت ہے تا کہ لوگوں کو جلد اور تیز تر انصاف کی فرا ہمی ممکن ہو سکے۔