میں بتاﺅں فرق کیا ہے

ہمارا کہنا ہے کہ من حیث القوم ہمیں ترقی یافتہ بننے میں دو تین صدیاں لگیں گی وہ بھی اگر ہم آج پٹری پر آجائیں۔۔ یعنی طے کر لیں اور سدھرنے کی کوشش شروع کردیںدو تین صدیوں کی بات اس لیئے کہ جتنے ہم بگڑے ہوئے ہیں اس کے سدھار میں اتنا ہی وقت درکار ہوگا۔ہم دنیا کے بیشتر ممالک میں گئے ہیں اور وہاں کے رہن سہن کو دیکھتے ہوئے ہماری یہ رائے بنی ہے۔۔ان ممالک میں ہم بھارت کو شامل نہیں کر رہے کہ وہ ہم سے بھی گیا گذرا ہے۔ان ممالک میں برائیاں بھی ہیں ،بد معاشیاں بھی ہیں۔لیکن روز مرہ کے معمولات میں قرینہ ہے ، ڈسپلن ہے ٹھہراﺅ ہے۔ان کے چہرے پر ہر وقت اطمینان اور سکون نظر آتا ہے۔دکانوں پر سیلز گرلز اور سیلز مین خندہ پیشانی سے ملتے ہیں۔آفسوں میں رعونت نام کو بھی نہیں جو ہمارا خاصہ ہے۔شکریہ اور سوری ان کا تکیہ کلام ہیں۔۔ ہم جیسے غیر ملکیوں کا بھی سامنا ہو جائے تو مسکرا کر ہیلو کہنے میں پہل بھی کرتے ہیں۔زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں پھر بھی غیر متعصب رہتے ہوئے ان کا اور اپنا ( ترقی یا فتہ ممالک اور ترقی پذیر ملکوں) موازنہ کرنے کے لیئے چند مثالیں کافی ہونگیں۔ہم نے جو دو تین صدیوں کی بات کی ہے تو یہ مبالغہ نہیں۔۔انفرادی طور بھی ہم لوگ بگڑے ہوئے اور اجتماعی طور پر بھی۔۔ملکی قانون کی دھجیاں اڑانے میں یکتا ہیں تو دین اور قرآنی تعلیمات اور احادیث اور سنت میں ڈنڈی مارنے میں عام مسلمان ہی نہیں علماء اور حکمراں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔۔یورپ میں بڑے بڑے سپر اسٹورز پر ایک کسٹمر کاﺅنٹر کی موجودگی سے اندازہ ہو جائیگا۔۔ان کاﺅنٹر ز کا عملہ ہر وقت مستعداورخدمت کے لیئے سرشار نظر آتا ہے۔تعجب ہو گا کہ ان کاﺅنٹرز پر مال واپس کرنے یا تبدیل کروانے کی سہولت ہے۔آپ خرید اہوا مال واپس یا تبدیل کرا سکتے ہیں شرط ہوتی ہے رسید ساتھ لانے کی( یاد رہے کہ کوئی بھی خرید و فروخت بغیر رسید نہیں کی جا سکتی۔۔ سب کچھ کمپیوٹرائزڈ ہے۔ کسی غلطی کا سوال ہی نہیں۔۔عملہ مال واپس لیتے ہوئے ایسی خندہ پیشانی سے ملتا ہے جیسے سودا بیچ رہا ہو۔ہمارے ملک کی دکانوں پر آویزاں تحریر کہ” خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا“ اس حدیث کی نفی کرتی ہوئی نظر ٓتی ہے کہ” اگر گاہک مال تبدیل یا واپس کرنا چاہے تو فوراً واپس لے لو“۔۔کار چلاتے ہوئے کوئی بھی آپ کو بائیں طرف سے اوور ٹیک نہیں کرتا جبکہ یہاں بائیں طرف سے نکلے گا بھی اور پلٹ کر کم از کم لعنت بھی دے گا کہ بائیں طرف کیوں مڑ رہے تھے۔چوراہوں اور راﺅنڈ اباﺅٹس پر پہلے دائیں طرف والوں کو نکلنے دینے میں چاہے کتنی بھی دیر ہو جائے، کوئی بھی کار آگے نہیں بڑھائے گا۔ہارن کی ہلکی سی آواز شاز و نادر ہی سنائی دیتی ہے وہ بھی اگر کو ئی واضح غلطی کر دے تب ہی تنبیہ کے طور پر۔۔اور اس صورت میں غلطی کرنے والا شرمندہ بھی ہوتا ہے اور اشارے سے معذرت بھی کرتا ہے یہاں تو گالیوں کا تبادلہ ہو جاتا ہے یا پھر ہاتھا پائی۔۔۔ہم نے بازار، مارکیٹس وغیرہ میں کبھی کسی کو لڑتے نہیں دیکھا۔جو جملے رش میں سنائی دیتے ہیں وہ یہ ہیں ” سوری۔ ایکسکیوز می یا تھینکس “ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی، مثلاً تیز رفتاری پر کیمرہ چالان کرتا ہے اور جرمانے کا چالان گھر پہنچ جاتا ہے۔۔غلط پارکنگ پر بھاری جرمانا ہوتا ہے۔اور ٹریفک پولس والے کار کو کلیمپ(Clamp) کر جاتے ہیں اور کھلوانے کے لیئے دوسرا عملہ آتا ہے جو بھاری جرمانہ لیکر کھول دیتا ہے۔۔ اپیل یا رشوت کی کوئی گنجائش نہیں ۔کیونکہ سب کچھ کیمرے پر رکارڈ ہوتا ہے۔معذوروں کے لیئے ہر جگہ مخصوص پاکنگ کی سہولت ہوتی ہے۔جس پر کوئی بھی پارک نہیں کرتا سوائے معذورین کے جن کی کار پر معذور ہونے کا اسٹکر لگا ہوتا ہے۔ بصور ت دیگر اتنا بڑا جرمانہ ہوتا ہے کہ طبیعت صاف ہو جاتی ہے۔
ایسی چھوٹی چھوٹی بہت سی باتیں ہیں جن کو سیکھنے میں صدیاں لگیں گی لیکن آج یہ کالم لکھنے کی وجہ ایک اور ہی واقعہ ہے جس سے ہمارے اس خیال کو تقویت ملی کہ ہمیں سدھرنے میں صدیاں لگیں گی ہوا یہ کہ ہمارے نواسے کو اللہ کے کرم سے ڈبلن کی سب سے بڑی میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔اس سے یہ معلوم ہوا کہ ڈائی سیکشن کے لیئے لوگ اپنی لاش دینے کی وصیت کر جاتے ہیں اور اسٹوڈنٹس لاش کی بے حرمتی نہیں کرتے جیسا ہمارے میڈیکل کالجوں میں ہوتا ہے۔یہاں لاشیں برہنہ پڑی رہتی ہیں اور اسٹوڈنٹس ان لاشوں کا مذاق اڑانے کے لیئے ۔اس کے مونہہ میں سگریٹ ٹھونس دیتے ہیں تو کبھی اور بھی گھناﺅ نی حرکت کرتے ہیں۔نواسے نے بتایا کہ جسم کے جس حصے پر کام کرنا ہوتا ہے صرف اس حصے کو کھولا جاتا ہے۔بقایا لاش ڈھکی رہتی ہے۔۔۔ کام ختم ہونے کے بعد لاش کی با عزت طریقے سے تدفین کر دی جاتی ہے۔
آپ خود اندازہ کریں یہ اور

ایسی کئی باتوں کے سدھار میں کتنا وقت لگے گا ۔ابھی تو ہمیں مساجد کے آداب بھی نہیں آتے۔ہمارے لوگ تو وضو کرتے ہوئے برابر میں بیٹھے پر بھی چھینٹے اڑاتے ہیں۔دیر سے آتے ہیں اور پہلے سے بیٹھے کو پھلانگتے ہو پہلی صف میں ثواب کی خاطر گھس جاتے ہیں۔ یقین جانیئے کہ سدھرنے کے لیئے جن جن باتوں میں بہتری ضروری ہے اگر ان کو بیان کرنے بیٹھیں تو ایک کالم نہیں ایک ضخیم کتاب لکھنی پڑے گی۔
اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق دے

ای پیپر دی نیشن