لیاقت علی خان انگلستان سے بیرسٹری پاس کر کے واپس ہندوستان لوٹے تو آل انڈیا مسلم لیگ کے مشن اور قیادت سے متاثر ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی ممبر شپ حاصل کی اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سکیرٹری چن لئے گئے۔ آل انڈیا مسلم لیگ اور مسلمانوں کی آزادی ان کو بڑی محبوب تھی۔ نوابزادہ ہوتے ہوئے عام مسلمانوں کی زندگی کو سنوارنے، آزادی حاصل کرنے میں محو ہو گئے اور شہادت تک مسلم لیگ کے سبز پرچم اور اپنے قائد اعظم کے اصولوں کو اپنائے رکھا۔ ان خصوصیات کی بدولت وہ قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان کے سب سے اعلیٰ قابل اعتماد دوست ثابت ہوئے اور پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد وہ نئی مملکت خداداد پاکستان کے پہلے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ آزادی ہند سے قبل عبوری حکومت میں وہ وزیر خزانہ تھے ۔11 اگست 1947ء کو آئین ساز اسمبلی میں پاکستان کا قومی پرچم پیش کیا تاکہ ممبران اسکی تائید آئینی اعتبار سے کریں۔ اپنی پر مغز تقریر میں نہایت اعتماد کے ساتھ آئین ساز اسمبلی کے ممبران اور صدر جناب قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے مخاطب ہو کر کہا…’’ہر ایک کو ذہن نشین کر لینا چاہئیے کہ یہ سبز چاند تارا والا جھنڈا کسی ایک گروپ، ایک پارٹی کا نہیں، یہ جھنڈاریاست پاکستان کا جھنڈا ہے۔ وہ پاکستان جو اللہ کے فضل سے 14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر آیا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے۔ یہ جھنڈا پرچم ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں ہے۔ یہ پاکستان کے اصولوں کی نشانی ہے اور پوری قوم کی اکثریت اور اقلیت کی نمائندگی ہے‘‘۔ خان لیاقت علی خان کی خدمات اور شخصیت، انداز بیان سے راقم زمانہ طالب علمی (سکول و کالج) سے ہی ان سے متاثر تھا۔ ان سے پہلی ملاقات 29 اکتوبر 1950ء اسلامیہ کالج پشاور میں ہوئی جب ان کو بطور مہمان اعلیٰ خان عبدالقیوم خان وزیر اعلیٰ سرحد نے پشاور یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے کیلئے مدعو کیا تھا۔ راقم یونیورسٹی آفیسرز ٹریننگ کا کوارٹر ماسٹر اور گارڈ آف آنرز کے چاق و چوبند دستے کا رکن تھا۔ لیاقت علی خان سلامی کے بعد ہماری صفوں سے گزرے اور راقم کے پاس آ کر رکے کیونکہ ہمارے کمانڈر میجر عبدالمطلب نے راقم کی طرف اشارہ کیا ’’یہ وہ طالب علم ہے جس نے کابلی دربار ڈرامہ تحریر کیا اور لنڈی کوتل میں طلباء کیلئے سٹیج کیا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کی گہری نظر راقم پر پڑی اور مسکرا کر آگے چل دیئے یہ ڈرامہ ہم نے کابل کے بارڈر پر طور خم کے حالات اور ظاہر شاہ کی حکومت اور لوگوں پر تحریر کیا تھا۔ کابل حکومت نے حکومت پاکستان کو Protest کا خط لکھا۔ وزیراعظم پاکستان نے کالج سے انکوائری کی، کالج نے جواب دیا، طلباء نے تفریح کیلئے سٹیج کیا تھا۔ دوسری بار راقم کی ملاقات ایبٹ آباد میں یوں ہوئی۔4 فروری 1950ء میں جناح پارک ایبٹ آباد کے پبلک جلسہ میں انکی تقریر میں جوش اور کشمیر کو حاصل کرنے کی تمنا تھی۔ ہم لیاقت علی خان کی قدر اس لئے کرتے ہیں کہ وہ قائد اعظم کے بڑے معتبر ساتھی تھے۔ آپ نے قرار داد مقاصد اسمبلی میں پیش کی جو آئین 1973ء کا حصہ ہو گئی۔
پاکستان بننے کے بعد مہاجرین کے پیدل قافلے آنے شروع ہوئے۔ ٹرین جب پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئی تھی، خون سے بھری ہوتی تھی۔ اتنی بڑی آبادی کو سنبھالنا بڑا مشکل کام تھا۔ ہمارے دفاتر نئے تھے، مالی حالت کمزور تھی، قائد اعظم محمد علی جناحؒ جلد وفات پا چکے تھے۔ دشمن کی نظریں ملک کیخلاف تھیں۔ 26 اکتوبر 1947ء کو کانگریس اور پنڈت جواہر لال نہرو کی حکومت نے کشمیر میں گورداسپور کے راستہ فوجیں داخل کیں۔ کشمیر میں جنگ شروع ہو گئی۔ روس کے تعلقات بھارت اور قابل سے زیادہ تھے۔ کا،بل حکومت نے U.N میں پاکستان کی رکنیت کو چیلنج کر دیا۔ اور ڈیورنڈ لائن کو ماننے سے انکار کر دیا جو 1883ء میں حکومت افغانستان اور برطانوی حکومت کے درمیان تاریخی معاہدہ ہوا تھا اور صوبہ سرحد کے پشتو زبان بولنے والوں کو اپنے ملک کا حصہ قرار دیا۔ یاد رہے ڈیورنڈ لائن اس وقت برطانوی حکومت کے سیکرٹری Motimer Duramd نے مذاکرات کر کے تعین کی تھی۔ یوں آپ اپنے آپکو خطروں سے محفوظ کرنے کیلئے امریکہ کی طرف دیکھنا پڑا۔ لیاقت علی خان نے بطور سربراہ مملکت امریکہ میں پہلا طویل دورہ 3 مئی سے 26 مئی 1950ء میں کیا پاکستان بننے وقت ناگفتہ بہ حالات تھے۔ نہ بجلی، نہ پانی، ہماری فوج کی تعداد انڈین فوج سے کم تھی۔پھر بھی لیاقت علی خان نے پنجاب یونیورسٹی لاہور گرائونڈ میں تقریر کرتے ہوئے کہا ’’میں بھارت اور پنڈت نہرو کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں اگر تم نے ہماری نظریاتی سرحدوں کو بری آنکھ سے دیکھا تو ہم تمہاری آنکھ نکال دینگے۔ اگر تم نے ہماری پاک سر زمین پر اپنا ناپاک قدم رکھا اور ہم تہماری کاٹ دینگے۔ آج کے بعد ہمارا نشان ’’مکہ‘‘ ہے۔ ہماری قوم یکجا ہے۔ اپنے ملک کا دفاع کرینگے۔ راقم 1951ء میں ایف ایس سی میڈیکل کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا کہ 16 اکتوبر شام ریڈیو پاکستان پشاور نے خبر نشر کی کہ ایبٹ آباد کے رہائشی سید اکبرنے لیاقت علی خان کو شہید کر دیا۔ یہ خبر ہم پر بجلی بن کر گری۔ پورا ملک اور بالخصوص ہزارہ سوگ میں ڈوب گیا کہ ہزارہ مسلم لیگ کا گڑھ تھا۔ ساری رات نہ سو سکا۔ اپنے دکھ اور درد کا اظہار انگریزی نظم کی صورت میں کیا جو اگلے روز 17 اکتوبر 1951ء کو گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد میں لیاقت علی خان مرحوم کی یاد میں منعقدہ تعزیتی جلسہ میں پیش کیا۔ جسے حاضرین نے بہت پسند کیا اور آخر میں مرحوم کیلئے دعائے مغفرت کی گئی۔