عشق اور محبت کبھی بوڑھے نہیں ہوتے؟

Oct 16, 2017

طاہر جمیل نورانی

ایک طویل غیرحاضری کے بعد میراوہی بزرگ گورا دوست جس کا ذکر انہی سطور میں کبھی کبھار کرتا رہتا ہوں‘ گزشتہ ہفتے بغیر اطلاع دیئے پھر آگیا۔ کالم لکھنے کیلئے میں مطالعہ میں مشغول تھا کہ ڈور بیل ہوئی‘ ایسے حالات میں دروازہ فوراً کھول دینا چاہئے تھا۔ اس کا جواب اس ایڈیٹوریل ایڈیٹر‘ خبر نویس یا کالم نگار سے پوچھیں جس نے Dead Line طے کر لی ہو۔ بحالت مجبوری ’’کاوڈاکٹ‘‘کرکے دروازہ کھولا تو سامنے بزرگوار محترم کیپٹن فریڈ کو مسکراتے ہوئے پایا۔ اس نے اندر آنے کی اجازت چاہی اور میں نےWay Not کہتے ہوئے اسے اس کی پسندیدہ جگہ پر بٹھا دیا۔ مجھے معلوم تھا کہ فریڈ اس طرح ہی کرتے ہیں۔ اگر جی چاہا تو فون کر لیا ورنہ جب جی اُداس ہوا‘ چپکے سے چلے آئے۔ میرے ہاں چند لمحات گزارنے کا ان کا بنیادی مقصد اپنی تنہائی کو کم اور اپنے عہدِشباب کی وہ یادیں مجھ سے شیئر کرنا ہوتی ہیں جن کے سہارے آج بھی وہ اپنے آپ کو جواں تصور کرتے ہیں۔ ’’قیام انگریزی‘‘ کی گرائمر پے مبنی لفاظی پر ان کی بلا کی گرفت ہے مگر یہ ان کا حُسن فطن ہے کہ انگریزی زبان کے ماہر ہونے کے باوجود وہ اکثر کہتے ہیں کہ میرے حسن گفتار کے وہ اسیر ہیں۔ فوجی افسر رہ چکے ہیں‘ اس لئے قیام پاکستان کا ذکر کرنے سے قبل اپنی 70 سالہ آرمی لائف کا حوالہ وہ ضرور دیتے ہیں جس سے ان کے چہرے پر ایک طمانیت سی نظر آنے لگتی ہے۔ اپنی اہلیہ آنجہانی Jully انہیں آج بھی شدت سے یاد آتی ہے مگر اپنی دو پالتو بلیوں کی بدولت ان کی یہ تنہائی اب قدرے کم ہو چکی ہے۔ جوانی میں کئے عشق کو آج بھی نہیں بھلا پائے۔
فریڈ کہنے لگے کہ کبھی کبھار پیشگی اطلاع دیئے بغیر تمہارے پاس چلا آتا ہوں اور یہ بھی اس لئے کہ انسانی رویوں‘ تہذیبوں کے ٹکرائو اور سیاسی نظریات پر تم سے گفتگو کرنے میں لطف آتا ہے۔ میرے لئے اس سے بڑی خوشی ہوتی ہے کہ تم مجھ سے Fedup نہیں ہوتے۔ Thats My Pleayre کہئے آج کیسے آنا ہوا۔
میں نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
Oh Sory میں یہ بتانا بھول ہی گیا لگتا ہے Demantiaa کا شکار ہونے جا رہا ہوں۔ فریڈ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ ہاں قدرے توقف کے بعد وہ بولے۔ ماہ اکتوبر کا آغاز ہو چکا ہے۔ یوں تو سال کے 12 مہینے ہی کسی نہ کسی حوالے سے اہم ہوتے ہیں‘ مگر اکتوبر اس لحاظ سے بھی میرے لئے زیادہ اہم ہے کہ برطانیہ سمیت یہ میری عمر کے بزرگ شہریوں اور ’’مسکراہٹ‘‘ بکھیرنے والوں کیلئے دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ آج کے دن عہد شباب کی چھیڑچھاڑ‘ عشق و محبت میں کھائی چوٹیں‘ دماغی صحت اور فرینڈشپ میں حاصل کی گئی کامیابیاں اور ناکامیاں جب یاد آتی ہیں تو چہرے پر خودبخود مسکراہٹ آجاتی ہے۔ چنانچہ سوچا کیوں نہ یہ دن آج تمہارے ساتھ گزاروں؟
تو پھر بتایئے اپنے عہد شباب کی وہ چوٹ جس کا درد آپ آج بھی محسوس کرتے ہیں۔ میں نے پوچھا۔ فریڈ نے ایک زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا وہ وTrememendous Story مجھے آج بھی یاد ہے جب مجھے Loereen سے محبت ہو گئی تھی۔
Essex کے ایک قریبی گائوں میں ہم رہے تھے وہ کانونٹ سکول کی طالبہ اور میں آرمی میں کمشن کی تیاری کر رہا تھا۔ کسی نے درست ہی تو کہا ہے کہ محبت کی نہیں جاتی‘ محبت ہو جاتی ہے۔ مجھے ٹینس اور اسے بیڈمنٹن کھیلنے کا شوق تھا۔ کھیل ختم ہوا اور ہم اپنے گھروں کی جانب آنے لگے کہ پل بھر میں موسم سخت خراب ہو گیا۔ آناً فاناً شدید سرد ہوائیں اور برف باری شروع ہو گئی۔ درختوں کے سوکھے پتے تسلسل سے گرنا شروع ہو گئے۔ یہ ایک طوفانی شام تھتی‘ ہم نے بھاگ کر ایک درخت کے نیچے پناہ لی اور پھر کیا اس خراب ترین موسم میں ہم ایک دوسرے کو اپنا دل دے چکے تھے۔ مگر مجھے کیا معلوم تھا 10 سال کی فرینڈشپ میرے لیفٹیننٹ بنتے ہی ختم ہو جائے گی۔ 1946ء کا دور تھا۔ برطانوی قدریں اور وضع داریاں ابھی ختم نہیں ہوئی تھیں؟ ’’لورین‘‘ کو لاکھ سمجھایا کہ آرمی لائف اتری بُری نہیں تھی تم تصور کر رہی ہو مگر گائوں کی رہنے والی یہ لڑکی مجھے شاید چھوڑنے کا حتمی فیصلہ کر چکی تھی۔ میں ابھی ملٹری اکیڈمی میں تھا کہ اس نے شادی کر لی۔ اس نے ایسا کوں کیا۔ آج تک میرے لئے ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ گو بعد میں Jully میری زندگی میں آگئی مگر لورین سے نبھائی دوستی آج بھی مغموم کر دیتی ہے کیونکہ وہ بھی اکتوبر کا مہینہ تھا۔ اس لئے اکتوبر کے آغاز میں اپنی مسکراہٹوں کو زندہ رکھنے کیلئے تمہارے پاس چلا آتا ہوں۔
’’فریڈ‘‘ کا چہرہ بتا رہا تھا کہ ’’محبت واقعی کی نہیں جاتی‘ محبت ہو ہی جاتی ہے۔‘‘ اور محبت ہونے کے بعد محبت جب کھو دی جائے تو پھر بڑھاپا بھی طعنہ زنی سے باز نہیں آتا۔
میں نے فریڈ کے چہرے پر دوبارہ مسکراہٹ لانے کیلئے ماہ اکتوبر کا ذکر ایک بار پھر چھیڑ دیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ’’عالمی دن‘‘ منانے کا بنیادی Concept کیا ہے۔ میں نے فیڈ سے پوچھا‘ درست تو معلوم نیہں البتہ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ ہر ماہ میں مخصوص دن منانے سے انسانوں اور حیوانوں کی محبت ان کی یاد اور ان کے حقوق کے بارے میں معلومات ملتی رہتی ہیں۔
تم جرنلسٹ ہو اس بارے میں مزید Elabortion کر سکتے ہو۔ فریڈ نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ہاں میں نے یو این او کی وہ رپورٹ پڑھی ہے جس میں ممبر ممالک کیلئے سال کے 12 ماہ میں کسی نہ کسی حوالے سے کوئی ایسا عالمی دن مختص ہے جسے ممبران ممالک ایک ہی دن منا سکیں۔ بنیادی طورپر آپ اسے اقوام متحدہ سے دوستی کا الحاق بھی کہہ سکتے ہیں مگر میری ذاتی رائے میں یہ دن منانے کا بنیادی فائدہ اگر ہوتا بھی ہے تو وہ بھی ترقی یافتہ ممالک کو ہے۔ اب دیکھیں ناں اس ماہ ہاتھ دھونے‘ معیار قائم کرنے‘ جانوروں کی بہبود اور اساتذہ کے دن کے علاوہ دیہاتی عورتوں کو فرسودہ نظام‘ رسم و رواج‘ جاہلانہ تشدد‘ کم عمری میں شادی اور انہیں سماجی دبائو سے محفوظ رکھنے کا عالمی دن منایا جاتا ہے مگر اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کی کثیر تعداد ’’دیہاتی عورت‘‘ کے مسائل اور اس کی مشکلات کا ازالہ کرنے کیلئے آج بھی مصلحتوں کا شکار ہے۔ Very True بے شک یہ منافقت ہے۔ فریڈ نے کہا۔ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ ہم پالتو بلیوں کا ہی عالمی دن شوق سے منائیں۔ اس سے کم از کم دنیا بھر میں 50 کروڑ کے لگ بھگ پالتو بلیوں کیلئے جانوروں کی بہبود کے مختص عالمی فنڈ میں سے کچھ رقم اس صحت اور بہبود پر تو خرچ کی جاتی ہے۔ لو اب میں چلتا ہوں۔ فریڈ نے اپنی واکنگ سٹیک اٹھائی اور بائی کہتے ہوئے روانہ ہو گیا۔

مزیدخبریں