16 اکتوبر خان لیاقت علی خان کا یوم شہادت ہے ۔ 1951میں آج ہی کے دن راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک ایسی ہستی کو شہید کر دیا گیا جس نے قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں تحریک پاکستان اور بعدازاں استحکام و ترقیِ پاکستان کیلئے گراں قدر خدمات سر انجام دیں او ر اپنے فرائض منصبی کے دوران ہی شہادت کے رتبے پر سرفراز ہوئے۔ نوابزادہ لیاقت علی خان ہندوستان کے ضلع کرنال کے ایک نواب خاندان کے گھر 1895میں پیدا ہوئے ۔ والد گرامی کا نام نواب رستم علی خان تھا ۔ والد چاہتے تھے کہ آپ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کریں چنانچہ آپ نے ابتدائی تعلیم کے بعد ایم۔ اے۔ او۔ کالج علی گڑھ سے پولیٹیکل سائنس اور قانون میں بی ۔ ایس ۔سی کی ڈگر ی حاصل کی ۔ بعدازاں انگلینڈ تشریف لے گئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹر ز کیا۔ دوران تعلیم طلبہ سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
انڈیا واپس آنے کے بعدآپ نے سیاست میں آنے اور مسلمانوں کے حقوق کے حصول اور انکے خلاف ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف جدوجہد کا پروگرام بنایا ۔ اگرچہ انہیں کانگرس میں شمولیت کی بھی دعوت دی گئی لیکن ہندولیڈر نہرو سے ایک ملاقات کے بعد ہی انہوں نے کانگرس کی دعوت مسترد کر دی اور قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1926میںآپ نے صوبائی قانون ساز کونسل کا انتخاب لڑااور بلا مقابلہ کامیابی حاصل کی ۔1932 میں آپ یوپی کی لیجسلیٹوکونسل کے بلا مقابلہ ڈپٹی پریذیڈنٹ منتخب ہوئے۔
1936میں ہندوستان واپسی کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے لیاقت علی خان کو مسلم لیگ کا اعزاز ی جنرل سیکرٹری بنانے کی قرارداد مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا اس عہدے پر قیام پاکستان تک رہے ۔ 1940میں مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے ڈپٹی لیڈر بنے۔1940میں قرارداد ِ پاکستان منظور ہوئی اسی سال ہونے والے انتخابات میں بھی آپ بلا مقابلہ ممبر منتخب ہوگئے۔1945-46کے انتخابات میں بھی آپ نے کامیابی حاصل کی اور مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے چیئرمین منتخب ہوئے ان انتخابات میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے مختص سیٹوں میں سے87%پر کا میابی حاصل کی ۔آپ نے کیبنٹ مشن اور کانگریس کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں قائداعظم کی معاونت کی ۔ تحریک پاکستان زوروں پرتھی بعدازاں جب یہ طے پایا کہ تقسیم سے پہلے کانگرس اور مسلم لیگ کے نمائندوں پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم کی جائیگی تو قائداعظم نے لیاقت علی خان کو مسلم لیگ کے نمائندوں کا لیڈر مقرر کیا ۔ عبوری کا بینہ میں آپ وزیر خزانہ بنے۔’’مسلم لیگ کی شمولیت کانگرس کی مرضی کے خلاف عمل میں آئی اس لئے کابینہ میں دونوں کی رفاقت شروع ہی سے معاندانہ اور مخاصبانہ رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی۔لیاقت علی خان نے یہ وزارت سنبھال کر اس چیلنج کو اس خوش اسلوبی سے قبول کیا کہ بہت جلد کانگرسی وزیر کفِ افسوس ملنے لگے کہ انہوں نے فنانس کا چارج مسلم لیگ کو دیکر بڑی فاش غلطی کی ہے۔ 14اگست1947 کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو حضرت قائداعظم پہلے گورنر جنرل اور جناب لیاقت علی خان پہلے وزیراعظم بنے۔ کانگرس نے انگریز وائسرائے کے ساتھ مل کر زبردست ساز باز کی اور کئی علاقوں کی پاکستان میں شمولیت کو رُکوا دیا ۔ کشمیر پر غاضبانہ قبضہ کیا ۔ قائداعظم اور انکی ٹیم نے ان انتہائی ناموافق حالات میں اس نوزائیدہ مملکت کے مسائل حل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ قائداعظم جن کی شاندار قائدانہ صلاحیتوں اور شبانہ روز محنت سے پاکستان کا قیام ممکن ہوا تھا ، 11 ستمبر 1948 کواپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تو ان کے بعد مملکت کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی ذمہ داری مکمل طور پر لیاقت علی خان کے کندھوں پر آن پڑی۔مملکت کو ایک اسلامی جمہور ی آئین دینے کیلئے آپ نے بھر پور کوششیں کیں ۔ آپ کی خواہش تھی کہ پاکستان کے آئین کی اساس قرآن و سنت پر ہو ۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے وسیع پیمانے پر علماء و قانون دانوں سے مشاورت کی اور آئین کا ایک بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جو’’قرادادِ مقاصد‘‘ کہلاتا ہے ۔ملت کے اس عظیم سپوت کو 16اکتوبر 1951کو کمپنی باغ راولپنڈی (جو انکی شہادت کے بعد لیاقت باغ کہلاتا ہے) ایک جلسہ عام میں اسوقت گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا جب وہ اپنی تقریر کا آغاز کر رہے تھے۔ سید اکبر نامی قاتل نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور آپ شدید زخمی ہو کر گر پڑے اور شہید ہو گئے لیکن مرتے وقت بھی انکے لبوں پر یہ الفاظ تھے ’’ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے‘‘ مجمع میں بھگدڑ مچ گئی اور ایک سب انسپکٹر نے سید اکبر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔ اس طرح قتل کے نشان مٹا دئیے گئے۔خان لیاقت علی خان مسلمانان پاکستان کے عظیم رہنما تھے، ملک و ملت کیلئے انکی خدمات مثالی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انکے درجات بلند فرمائے ۔ آمین