نئے انتخابات اور راست اقدام

جناب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی راست اقدام آپ کی ذمہ داری ہے اس لئے کہ پاک فوج پر حملہ باہر سے نہیں اندر سے ہو رہا ہے جس کی تمام تر ذمہ داری آپ پر آتی ہے مروت لحاظ اور رواداری بہت ہوچکی عملی اقدامات کریں کچھ نہیں کرسکتے تو عوام سے رجوع کےلئے عام انتخابات کا راستہ اپنائیں لیکن خدا را پاکستان کےخلاف مہم کا حصہ مت بنیں۔ فوج کو (پنچنگ بیگ)Bag Punching بنا دیا گیا ہے دو وفاقی وزرا کی خصوصی ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ آتے جاتے ایک دو مکے لگاتے جائیں جس کا تازہ ترین مظاہرہ ایک دن کسی یونیورسٹی میں پڑھائے بغیر پروفیسر بن جانے والے احسن اقبال نے کیا ہے اور دوسرے مہربان خواجہ آصف ہیں ان کے منہ میں جو آتا ہے کہے جاتے ہیں اور اس پر جا بجا داد پاتے ہیں کیا یہ سب بلا سبب 'خود بخود ہو رہا ہے؟ بالکل نہیں' جناب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک گہری سازش کا نتیجہ ہے جس مقصد پاکستان میں افراتفری پیدا کرکے معاملات اس طرح الجھا دینا ہے کہ خاکم بدہن اپنے قدموں پر منہ کے بل آ گرے اور اس منصوبے پر مکمل سنگدلی سے عملدرآمد ہورہا ہے۔وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال فرماتے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو معیشت پر بیانات اور تبصروں سے گریز کرنا چاہیے، پاکستان کی معیشت مستحکم ہے، غیر ذمے دارانہ بیانات پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر کر سکتے ہیں۔احسن اقبال یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے ترقیاتی بجٹ پر عمل ہو رہا ہے۔ جس کی اصل اوقات اور حقیقت کچھ یوں ہے کہ 2013 سے 2017 کے دوران صرف چار سال میں 30 ارب ڈالر سے زائد کے قرض لے کر آﺅٹ پٹانگ منصوبوں پر لٹا دئیے گئے جن کا قومی ترجیحات سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے اور اسے ترقیاتی منصوبوں کا نام دیا جا رہا ہے۔
احسن اقبال کہنے کو وزیر داخلہ ہیں لیکن کام وزیر خزانہ اور وزیر دفاع کا کر رہے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں بیرون ملک دورے پر ہوں لوگ مجھ سے پاکستانی معیشت پر سوال کررہے ہیں، مجھ سے سوالات پاکستان سے آنے والے بیانات کے حوالے سے کیے جارہے ہیں۔ پاکستان کی معاشی ترقی کی اصل حقیقت کچھ یوں ہے کہ پاکستان بھاری قرضوں تلے ڈوب چکا ہے کہ اس کا اعتبار ختم ہو گیا ہے کوئی ریاست کی ضمانت پر ہمیں قرض دینے کو تیار نہیں ہے جو کہ کسی بھی ملک کے دیوالیہ ہونے کی پہلی علامت ہوتی ہے۔
اب عالمی ادارے ہماری ریاست کی ضمانت (guaranty sovereign ) پراعتبار کرنے کو تیار نہیں وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان پہلے اپنی سرکاری عمارتیں گروی رکھے۔ کبھی سرکاری گارنٹی دینا بہت بڑی خبر ہوتی تھی کہ حکومت پاکستان نے قرضہ لینے کے لیے ساورن گارنٹی دے دی ہے کہ اگر فلاں محکمے نے قرضہ واپس نہ کیا تو حکومت واپس کرے گی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کے4 سالہ دور اقتدار میں بدترین تجارتی خسارے کے باعث ملک اربوں ڈالرز کا مقروض ہو گیا، 30 ارب ڈالر کا ریکارڈ تاریخی قرضہ لیا، مزید قرض کے حصول کے لیے پاکستان کو موٹرویز، ائرپورٹ اور عمارتیں بھی گروی رکھوانا پڑیں جبکہ صرف 3 سرکاری اداروں کا خسارہ 705 ارب سے تجاوز ہو گیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نوازشریف کے 4 سالہ دور اقتدار میں جون 2013 میں پاکستان پر کل بیرونی قرضہ 48.1 ارب ڈالر تھا اور جون2017 میں پاکستان پر کل بیرونی قرضہ 78.1 ارب ڈالر ہے صرف 4 سال میں 30ارب ڈالر بنتا ہے یہ اتنا زیادہ قرضہ ہے کہ پاکستان پر عالمی مالیاتی اداروں کا بھروسہ ختم ہو گیا اور تاریخ میں پہلی بار مزید قرضہ حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے پاس اپنی موٹرویز، ہوائی اڈے اور ریڈیو پاکستان کی عمارت تک گروی رکھوانی پڑیں۔
ذرائع نے بتایا کہ مالی سال 2012-13 میں پاکستان کا کل تجارتی خسارہ 15ارب ڈالر تھا، مالی سال2016-17 میں کل تجارتی خسارہ 24 ارب ڈالر ہو چکا ہے یہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین خسارہ ہے۔ 2013 میں اندرونی قرضے14318 ارب روپے تھے جو2017 تک20872 ارب روپے ہوچکے ہیں ، یہ اندرونی قرضے کی بلند ترین سطح ہے۔ 2012-13 میں 3 بڑے سرکاری اداروں پی آئی اے ، پاکستان اسٹیل ملز اور پاکستان ریلوے کا کل خسارہ تقریباً312 ارب روپے کے لگ بھگ تھا، 2017 میں تینوں اداروں کا مجموعی خسارہ 705 ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے، 2013 میں گردشی قرضہ 400 ارب روپے اور2017 میں گردشی قرضہ 500 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ 2018 تک یہ قرض 90 ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس کے بعد اس قرض کا سود ادا کرنا ممکن نہیں رہے گا اور پھرہمیں اپنے ایٹمی ہتھیار اور ایٹمی پروگرام گروی رکھنا ہوگا ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ پاکستان (IMPLODE) ہو اپنے قدموں پر منہ کے بل گر جائے کہ دھماکہ نہ ہو سب کچھ خاموشی سے ہو جائے اور دو اہم ترین وزرا اس کام پر لگے ہوئے ہیں اور ہمارے وزیر دفاع خرم دستگیر لاپتہ ہیں یہ وقت تھا کہ سامنے آتے اور چھیڑ خانی کا نوٹس لیتے البتہ جاری تنازعہ میں عمران خان میدان میں آئے ہیں اور انہوں نے کھل کر پاکستان کی ابتر اقتصادی صورتحال پر تبصرہ کیا ہے شریف 'ڈار گٹھ جوڑ نے قوم اور آیندہ نسلوں کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا ہے جبکہ بات بہ بات بیان دینے اور نمایاں رہنے کے شوقین سراج الحق کسی گہری سوچ و بچار میں گم ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ احسن اقبال کا بیان ڈان لیکس کا ایجنڈا ہے، نواز شریف کے درباری قوم کو بے وقوف نہیں بناسکتے۔ اس بیان کا مقصد مسلح افواج کو بدنام اور بیرونی طاقتوں کو خوش کرنا ہے یہ کالم نگار فوج کے تعلقات عامہ ISPR سے زیادہ ربط و ضبط نہیں رکھتا کیونکہ میرا موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے سپاہی لڑ سکتا ہے ہر فن مولا نہیں ہو سکتا لیکن صاحب 'لوح و قلم' برگیڈئیر صولت رضا اور کرنل اشفاق حسین استثنی ہیں۔ میجر جنرل آصف غفور نے 7 گھنٹے طویل کور کمانڈر کانفرنس کے بعد پریس ریلیز جاری نہ کرنے کی وضاحت شاعرانہ انداز میں کی تھی کہ خاموشی بھی جواب ہوتی ہے اب انہیں بخوبی پتہ چل گیا ہو گا کہ ان کا واسطہ کس طرح کے رہنماو¿ں سے پڑا ہوا ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے پاکستان میں مشترکہ آپریشن کرنے کے امکانات کا ذکر کیا تو وضآحت انہیں کرنا پڑی کہ مشترکہ آپریشن دو ملکوں کے درمیان ہوتا ہے جس میں دونوں ملکوں کی فوجیں شامل ہوتی ہیں لیکن پاکستان کی سرزمین پر کسی مشترکہ آپریشن کی کوئی گنجائش ہے اور نہ آئندہ ہوگی۔ اسی طرح انہیں ’احسن اقبال کے بیان پر دکھ ہوا‘ ان کا کہنا تھا کہ احسن اقبال کے بیان پر رد عمل نہیں دینا چاہتا کیونکہ اس پر سیاسی جماعتوں کا رد عمل آگیا ہے، لیکن یہ کہنا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے غیر ذمہ دارانہ بیان دیا یہ بات دشمنوں کو کرنی چاہیے ہمیں نہیں، ’بطور سپاہی اور بحیثیت پاکستانی احسن اقبال کے بیان پر دکھ ہوا۔ (جاری)


یہ حقیقت تو سنہرے حروف سے لکھی جانی چاہئے کہ "جمہوریت کو پاک فوج سے کوئی خطرہ نہیں اور جمہوریت کو اگر کوئی خطرہ ہوسکتا ہے تووہ جمہوریت کے تقاضوں کوپورا نہ کرنے سے ہوسکتا ہے" لیکن کون ہے جو اس پر غور کرنے کی زحمت ہی کرلے۔
حرف آخر یہ کہ معروف کالم نگار اینکر اور مصنف رو¿ف کلاسرا سرکاری اللے تللوں کی ہوش ربا کہانیاں سناتے رہتے ہیں آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ "پاکستان ٹیلی ویڑن کی اسلام آباد، لاہور، کراچی اورکوئٹہ کی عمارتیں بچ گئی تھیں جنہیں گروی رکھ کر قرضہ لیا جا رہا ہے۔ وزارت خزانہ بہت بھاری قرض لینا چاہتی ہے اس کےلئے صرف PTV کی عمارات سے کام نہیں چلے گا۔ ریڈیو پاکستان کے ملک بھر میں پھیلے نیٹ ورک کی تمام عمارتوں کو بھی گروی رکھا جائے۔ سروے کرایا گیا تو پتا چلا ریڈیو پاکستان کی ک±ل61 عمارتیں ہیں۔ جن کی مجموعی قیمت 72 کروڑ روپے لگائی۔ ریڈیو پاکستان کے ہیڈکوارٹر کی عمارت کی قیمت پانچ سے دس ارب روپے ہونی چاہیے جو سفارتی علاقے کے سامنے ہے۔ جہاں ایک پلاٹ کی قیمت اربوں روپے ہوگی، لیکن ریڈیو پاکستان کی اس عمارت کی قیمت صرف چند کروڑ روپے لگائی گئی۔
ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کو وزارت خزانہ نے ان عمارتوں کوگروی رکھنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ یہ قرضہ ملک چلانے کے لیے ضروری ہے۔ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کی انتظامیہ کو مطمئن کرنے کے لیے کہا گیا کہ وہ پریشان نہ ہوں، اس سے پہلے موٹروے اور کراچی ایئرپورٹ کو بھی گروی رکھ کر قرضے لیا چکا ہے۔ اب باری پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی عمارتوں کی ہے۔ اس پر ان اداروں کے سربراہوں کو حکم ہوا کہ وہ فوری طور پر اپنے اپنے بورڈز کے اجلاس بلائیں اور وزارت خزانہ کے اس حکم کی تعمیل کی جائے۔ ایک قرارداد بھی تیارکی گئی تاکہ اس کو منظور کرنے کے فوراً بعد ان سرکاری عمارتوں کی کاغذی کارروائی پوری کرکے دستاویزات ان سرمایہ کاروں کے حوالے کی جائیں جوان عمارتوں پر قرضہ دیں گے۔ اگر سود سمیت انہیں قرضہ واپس نہ کیا گیا تو انہیں یہ حق ہوگا کہ وہ ان عمارتوں کا کنٹرول سنبھال لیں۔ اب عالمی ساہوکار حکومت پاکستان کی گارنٹی پر یقین بھی نہیں کرتا۔ اب وہ کہتا ہے آپ کا کیا بھروسہ، کل کو دیوالیہ ہو جاو¿ تو ہم کہاں سے گارنٹیاں کیش کراتے پھریں گے۔ سیدھی بات کرو اور اپنے اثاثے ہمارے حوالے کرو اور ڈالر لو۔ یوں پہلی دفعہ پاکستان نے ایک فیصلہ کیا اور موٹرویز کو گارنٹی کے طور پرگروی رکھ کر قرضہ لیا۔ اس کے بعد دوسرے موٹر وے کی باری آئی اور پھر تیسرے کی۔ جب سب موٹروے ختم ہوگئے تو خیال آیا کہ اب ملک کے ایئر پورٹس کوگارنٹی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ سب سے پہلے کراچی ایئرپورٹ کو گروی رکھ کر قرضہ لیا گیا۔ سابق سیکرٹری خزانہ واجد رانا خبردار کرچکے ہیں کہ تین برسوں میں 30 ارب ڈالرقرضہ لیا جا چکا ہے۔ سابق وزیرخزانہ حفیظ پاشا پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ 2018ءتک پاکستان کے قرضے 90 ارب ڈالر ہو جائیں گے جنہیں پاکستان واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔
ایک مغربی سفارتکار نے بتایا کہ پاکستان کو قرضوں کے جال میں پھنسانے کا پورا منصوبہ تیار ہے۔ جب نوے ارب ڈالر تک قرضے پہنچیں گے اور پاکستان واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا تو پھر اسے اپنے ایٹم بم پر سمجھوتا کرنا پڑے گا ورنہ دنیا بھر میں تنہائی کا شکار ہوگا اور چند دنوں میں ہی دیوالیہ ہوجائے گا۔ پی ٹی وی کی عمارت کو گروی رکھ کر ڈالر لینے کا منصوبہ ہے اس کے بعد پارلیمنٹ ہاﺅس، ایوان صدر، وزیراعظم ہاﺅس اور وزیراعظم سیکرٹریٹ کو بھی گروی رکھا جاسکتا ہے۔
وفاقی وزرا کا شاہی محلہ بھی موجود ہے اسے بھی گروی رکھا جاسکتاہے ویسے تو ججوں کی کالونی ڈپلومیٹک انکلیوکو بھی گروی رکھنے پر غور ہو سکتا ہے۔ سنتا جا شرماتا جا

ای پیپر دی نیشن