”بین الاقوامی مالی مدد اور کشکول کا بڑھتا حجم “

ملک کی موجودہ مالی صورت حال اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ اگر اس میں معجزانہ طور پر کوئی بہتری یا تبدیلی رونمانہ ہوئی تو مجبوراً ہمIMF یعنی بین الاقوامی مالی امداد دینے والے ادارے کے جال میں پھنس جائیں گے۔ جو کہ مالی امداد کے ذریعے مقروض ملک کو اپنا زر خرید غلام بنا لیتا ہے اور عالمیDON یعنی امریکہ جس کو اس سلسلے میں ویٹو وغیرہ کی سہولیات حاصل ہیں وہ IMF کے چنگل میں پھنسے ہوئے ملک کو بلیک میل کرتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیا مالی مجبوریاں ہیں جو ہمیں اس عالمی ادارے سے امداد لینے کے لےے مجبور کر رہی ہیں۔ ان کا تفصیلی جائزہ درج ذیل ہے۔پچھلے سال اکتوبر کے مہینے میں سٹیٹ بینک کے پاس فار ن ایکسچینج کے ذخائر کی مالیت 19ملین ڈالر (ایک کروڑ9لاکھ) تھی۔ تقریباً ایک سال کے بعد 15ستمبر 2017ءمیں یہ رقم 11ماہ کے قلیل عرصے میں 5بلین ڈالر(500کروڑ روپے) کم ہو کر14بلین ڈالر ( 1400کروڑ روپے) رہ گئی یعنی اس میں صرف 11ماہ میں 25فی صد کی کمی واقع ہوئی۔
نیز پاکستان کی تاریخ میں ابھی تک کبھی ایک سال کے عرصے میں 55بلین ڈالر( 500کروڑ روپے) کی اشیاءدرآمد نہیں کی گئیں اور اسی طرح ملکی تاریخ میں کاروبار اور تجارت کا خسارہ 32ملین ڈالر (3کروڑ2لاکھ روپے) نہیں رہا۔ مزید برآں ایک سال میںکرنٹ اکاﺅنٹ کا خسارہ بھی 12بلین ڈالر ( 1200کروڑروپے) نہیں برداشت کیا گیا اور پہلے کبھی بھی پانچ سال کے عرصے (2012سے 2017) میں برآمدات 25 بلین ڈالر ( 2500کروڑ روپے) سے کم ہو کر 20 ملین ڈالر ( 200کروڑ روپے) نہیں رہیں۔
پریشان کن بات یہ ہے کہ ہمارا اکیسٹرنل اکاﺅنٹ کا خسارہ بڑی تیزی سے تنزلی کا شکار ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ جولائی ۔اگست2017 کے دو ماہ میں یہ خسارہ 102فی صد بڑھ کر 2.6 بلین( 200کروڑ6لاکھ روپے ) ہو گیا۔ جب کہ پچھلے مالی سال 2016-17 میں ان ہی دو ماہ میں 1.29 بلین ( 100کروڑ29لاکھ روپے) تھا۔ مزید برآں مالی سال 2017-18 دو ماہ بھی جولائی اگست میں درآمدت میں اضافہ ہوااور وہ بڑھ کر 8.98بلین ( 800 کروڑ98لاکھ روپے) تک پہنچ گئیں۔ حکومتی اعلان کے مطابق سٹیٹ بینک کے پاس 14 بلین ڈالر کا محفوظ سرمایہ (Reserves) موجود ہیں جو کہ صرف 3ماہ کی درآمدت کے لےے کافی ہے۔ مگر اصل صورت حال یہ ہے کہ سٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں سے 4 ملین ڈالر ( 4ہزار کروڑروپے) ادھار لے کر عارضی اور مصنوعی طور پر اپنے محفوظ سرمائے میں اضافہ کیا ہے جو در حقیقت حکومت کی طرف سے اصل صورت حال کو چھپانے کی کو شش ہے اور حقیقت میںحکومت کے پاس اس وقت محفوظ سرمایہ صرف دو ماہ کے لےے موجود ہیں جو کہ ایک بہت ہی مایوس کن صورت حال کی نشان دہی کرتا ہے۔ نتیجتاً سٹیٹ بینک کا خزانہ اپریل 2018 میں بالکل خالی ہو جائے گا۔بجٹ کے حوالے سے اندرون ملک حکومت کی آمدن اور اخراجات میں تقریباً 2 ٹریلین روپے کی کمی کا سامنا ہے اور بیرونی سطح پر کرنٹ اکاﺅنٹ کا خسارہ 15بلین ڈالر( 1500کروڑروپے) سے بڑھ گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی کل آبادی پر 40 بلین ڈالر( 400کروڑ روپے) کا بوجھ پڑے گا جو کہ حکومت IMFسے قرضہ لے کر پورا کرے گی کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ دستیاب نہیں ہے۔
قارئین! ملک کی مالی صورت حال بہت زیادہ تشویش ناک ہے جس کی اصل وجہ ہمارے ارباب اختیار کی نااہلی اور بد عنوانی ہے۔ اُن کے اپنے اثاثے جو کہ بیرون ملک بینکوں میں اور جائیدادوں کی صورت میں موجود ہیں۔ ہمارے لیڈرز کے اگر یہ اثاثے جو بیرون ملک محفوظ ہیں ملک میں واپس آجائیں تو نہ صرف ہمارے تجارتی خسارے کو پورا کیا جا سکتا ہے بلکہ IMF کے قرضوں کو ادا کرنے کے علاوہ آئندہ پانچ سال کے بجٹ کے لےے ملکی خزانے میں روپیا بھی محفوظ ہو سکتا ہے۔ ملک سے لوٹی ہوئی دولت سے بنائے گئے ہیں اور اب چند ماہ تک IMF سے قرض لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ جہاں تک اس عالمی ادارے کا تعلق ہے تو یہ صرف مالی امداد نہیں دیتا بلکہ دراصل یہ مقروض ممالک کو بلیک میل کرتا ہے اور اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لےے استعمال کرتا ہے۔ اس کا اندازہ اس ادارے میں اس کے ممبر ممالک کی ووٹ دینے کی صلاحیت سے واضح ہو جاتا ہے۔ مثلاً پاکستا ن کے کل 21,775ووٹ ہیں جبکہ امریکہ کے 831,407 یعنی ایک مقروض ملک اس کے شکنجے میں ہے اور وہ اپنی من مانی کی پالیساں اُس پر مسلط کر سکتا ہے حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے امداد لینے سے ملک کی مشکلات ختم نہیں ہوتیں بلکہ شروع ہوتی ہیں اور اس طرح اس حکومت کا اپنے الیکشن کے منشور میں ” کشکول کو توڑنے“کے جو بلند وبالا وعدے کئے گئے اس کا بھی پول کھل جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن