لاہور (وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پنجاب میں قائم ماڈل کورٹس میں مختصر عرصہ میں ایک بڑی تعداد میں مقدمات کے فیصلے ہوئے ہیں لیکن ہمیں خیال رکھنا ہے کہ کسی ایک مقدمے میں بھی ناانصافی نہ ہو کیونکہ عجلت میں انصاف، انصاف دفن کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری پنجاب وومن ججز کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس ایک تحریری آئین موجود ہے جس میں خواتین اور مردوں کے بنیادی حقوق کی مکمل تشریح موجود ہے۔ عدلیہ کے ادارے کا سربراہ ہونے کے ناطے ججز کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ علم قانون پر دسترس حاصل کریں۔ ہم اور آپ نے قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ کوئی بھی جج اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں میرا یقین ہے کہ زیر التوا مقدمات کو نمٹانے کیلئے مصالحتی مراکز کے سوا کوئی حل موجود نہیں۔ انہوں نے کانفرنس میں شریک جوڈیشل افسروں سے کہا کہ ایک سول جج کی جانب سے کسی ایک غلط نقطے پر ہونے والا فیصلہ سپریم کورٹ تک سالوں ضائع کر دیتا ہے۔ اگر ضلعی عدلیہ اپناکام ذمہ داری کے ساتھ کرے گی تو اعلیٰ عدالتوں پر بوجھ نہیں آئے گا۔ جج بن کر فیصلے کریں۔ یاد رکھیں سپریم کورٹ سے لیکر سول عدالت تک کوئی فرق نہیں سب جج ہیں۔ انہوں نے جوڈیشل آفیسرز کو تاکید کی کہ قانون پڑھیں اور قانون کا استعمال کریں اور مقدمات کو غیر ضروری التوا میں نہ ڈالیں۔ مقدمات کا غیرضروری التوا ایک بیماری ہے جس میں مبتلا سائلین کو ذہنی کے ساتھ ساتھ جسمانی اذیت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔ قبل ازیں کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ انہوں نے گزشتہ کانفرنس میں محسوس کیا تھا کہ خواتین ججز کو بہت سارے مسائل کا سامنا ہے۔ ہم نے گزشتہ ایک سال میں ضلعی عدلیہ کو فعال کرنے کے ساتھ ساتھ ججز کو بااختیار بنانے پر بھی کام کیا ہے اور جوڈیشل آفیسرز خصوصاََ خواتین ججز کو مناسب سہولتیں فراہم کی ہیں۔ عدالتوں کا بااختیار اور شفاف ہونا اور بلاامتیاز انصاف فراہم کرنا انصاف تک آسان رسائی کا حصہ ہے۔ ملک میں شفاف انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے شرکاء کو بتایا لاہور ہائیکورٹ سے ضلعی عدلیہ تک خواتین ججز کو ہر فورم پر بلا امتیاز نمائندگی دی۔ لاہور ہائیکورٹ کی دو فاضل ججز بجٹ و فنانس اور آئی ٹی سمیت متعدد کمیٹیوں کی ممبران ہیں۔ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں موجودہ اور سابقہ ڈائریکٹر جنرل خاتون جج ہیں اور ایک خاتون جج کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بھی تعینات کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین ججز کے مسائل کے حل کیلئے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کی سربراہی میں ویلفیئر کمیٹی بھی بنائی گئی ہے۔ ضلعی عدلیہ اور لاہور ہائیکورٹ کے مابین بہترین رابطے کیلئے ایڈوائزری کمیٹی (تھنک ٹینک) تشکیل دی گئی۔کمیٹی میں سول ججز سے سیشن ججز تک تمام عہدوں کی نمائندگی موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صوبائی عدلیہ میں زیرالتوا مقدمات کی کثیرتعداد بہت بڑا مسئلہ ہے، اس سے نمٹنے کیلئے ماڈل کورٹس، مصالحتی مراکز اور خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میںلایا گیا۔ ہمیں ایسے ججز کی ضرورت ہے جو جینڈر فری انصاف کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ سے تمام ججز ہیں اور آئندہ تمام ججز اپنا نام مسٹر یا مسز کی بجائے جج لکھ کر شروع کریں گے۔ اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر جسٹس عائشہ اے ملک کو مبارکباد پیش کی۔ فاضل چیف جسٹس نے چیف جسٹس آف پاکستان کا کانفرنس میں شرکت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا چیف جسٹس پاکستان کی سپورٹ کے بغیر عدلیہ میں اصلاحات کا نفاذ ممکن نہیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد بتائے۔ شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ سائلین کا عدالتوں تک آنا ہی کافی نہیں۔ بلکہ انصاف تک آسان رسائی کا مقصد سائلین بشمول خواتین کو انکے حقوق کی فراہمی ہے۔ اختتامی سیشن سے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف وومن ججز کی صدر سوزانا میڈینا اور دیگر ممبران نے بھی اظہار خیال کیا۔ ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آئین کے تحت ہر شہری کے لئے قانون یکساں ہے۔ جج فیصلہ کرتے وقت قانون کو مدنظر رکھنے کے پابند ہیں۔ کسی جج کو غلط طریقے چلاکر فیصلہ دینے کا اختیار نہیں‘ عدالتی فیصلوں کا معیار نظر آنا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ ہم ملک میں قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ ہمارا ہر قدم قانون کی حکمرانی کے لئے ہونا چاہئے‘ بطور جج ہم ہر شہری کو فوری اور معیاری انصاف فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہاکہ ایسا سسٹم بنانا ہو گا جہاں خاتون آسانی سے مسئلہ بتا سکے‘ بطور جج ہمیں سائل کی مشکلات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے‘ جج عدالتوں کے ماحول میں بہتری کے لئے کردار ادا کریں۔
چیف جسٹس