ضمنی انتخاب کا معرکہ

14 اکتوبر کو ضمنی انتخاب کا معرکہ اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ 25 جولائی کے الیکشن کے بعد ضمنی انتخابات کی اہمیت اس لحاظ سے دوچند ہو گئی تھی کہ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد عام انتخابات کی انتخابی مہم والے ٹمپو کو سُست نہیں ہونے دیا۔ میڈیا سے گفتگو ہویا پارلیمنٹ میں خطابات حکمران جماعت کے زعماء کا پارہ چڑھا رہااور وہ اپوزیشن پر گرجتے برستے رہے۔اسکے برعکس اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں نے اگرچہ حکومتی ذمہ داروں کے تلخ رویے پر سخت ردعمل ظاہر کرنے کی بجائے انہیں اعتدال سے چلنے کی دعوت دی اور الیکشن کے نتائج کے بارے میں اپنے تحفظات کے باوجود حکومت سے تعاون کا رویہ اپنایا لیکن حکمران جماعت کی جانب سے اس کا مطلب یہ لیا گیا کہ سابق دو حکمران جماعتوں سمیت اُنکے اتحادیوں میں شامل جماعتوں کے بعض رہنما حکومت سے رعایت کے خواہاں ہیں تاکہ انکی مبینہ لوٹ مار کا حساب نہ لیا جا سکے۔ سو اُن کو چور، ڈاکو اور لٹیرے کے القابات سے پارلیمنٹ میں بھی نوازا گیا اور میڈیا میں بھی ان الفاظ کے استعمال کی تکرار جاری رہی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اور اُن کا خاندان بیگم کلثوم نواز کی وفات سے صدمے کی حالت میں تھا لیکن اُن کو بھی نہ بخشا گیا۔ احتساب کے نام پر قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور اُنکے بیٹوں، داماد کا نہ صرف ناطقہ بند کیا گیا بلکہ خود میاں شہباز شریف کو صاف پانی ، کیس میں بلا کر نیب نے آشیانہ اقبال سکینڈل میں دھر لیا۔ میاں شہباز شریف کی اہلیہ تہمینہ درانی نے اپنے شوہر سے ملاقات کے بعد نیب کی زیادتی کو طشت ازبام کر دیا ۔ انہوں نے شور مچایا کہ شہباز شریف کو ایک گندے کمرے میں رکھا گیا ہے جس میں دن رات کا پتہ نہیں چلتا۔ اس تنگ کمرے میں تازہ ہوا کا کوئی گزر نہیں ہے۔
ایک طرف اپوزیشن کیساتھ یہ حالات ہیں اور دوسری طرف حکمران اپنے کہے ہوئے الفاظ کی لاج رکھنے میں ناکام نظرآتے ہیں۔ آئی ایم ایف میں جانے کی بجائے خودکشی کرنے کے اعلان کرنیوالے وزیراعظم کی حکومت آئی ایم ایف کے سامنے کشکول لئے بھی پھر رہی ہیں۔ اپوزیشن کے زمانے میں وہ اس وقت کے حکمرانوں پر جو دشنام طرازی کرتے رہے تھے اب وہ انہیں مہنگا پڑ رہا ہے۔حتی کہ اسحاق ڈار کی پالیسی اور حکمت عملی بھی انہیں اب حقیقت پسندانہ محسوس ہونے لگی ہے۔ حکومت کے 50 دن میں طرزعمل اور سستی شہرت حاصل کرنیوالے اقدامات کے سوا عوام کی ریلیف کیلئے کوئی ٹھوس اقدام نہ کرنے کے باعث حکومت اور حکمرانوں کی مقبولیت کا گراف بہت تیزی سے نیچے گرا ہے۔ مہنگائی کا عفریت عوام کو ڈس رہا ہے اور آنیوالے دنوں میں مزید مہنگائی کے امکان نے لوگوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ ان حالات میں ضمنی انتخابات آئے۔ پی ٹی آئی کے ضمنی الیکشن میں کلین سویپ کرنے کے دعوے ایک طرف تھے اور مندرجہ بالا بیان کئے گئے حالات دوسری طرف ۔ سو 14 اکتوبر کے الیکشن میں حکمران جماعت پی ٹی آئی نہ صرف قومی اسمبلی کی جیتی ہوئی تین نشستیں ہار گئی بلکہ موجودہ حکومت کے ترجمان اور وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری کی صوبائی نشست بھی گنوا بیٹھی۔ قومی اسمبلی کی ہارنے والی نشستوں میں سے دو خود وزیراعظم عمران خان نے چھوڑی تھیں۔ خیبر پختونخواہ میں وزیراعلیٰ کے ضلع سوات میں دونوں نشستیں ہاتھ سے گئیں۔ اس پر بھی وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور اُنکے ساتھی اگر یہ کہیں کہ ضمنی الیکشن میں نقصان نہیں ہوا بلکہ الٹا دعویٰ کریںکہ پی ٹی آئی نے اپنی برتری ثابت کی ہے اور وہ بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے تو سوائے اسکے کیا کہا جا سکتا ہے کہ بلی دیکھ کرکبوتر کے آنکھیں بند کرنے کا اچھا نتیجہ نہیں نکلتا۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، اُن کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر اگر دیگر مقدمات میں سزائوں سے بچ گئے تو آنیوالے دنوں میں ان کا پاکستان کی سیاست میں نمایاں کردار ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) میں اعتدال پسند سیاست کرنے کے سرخیل میاں شہباز شریف کے ساتھ اس دور حکومت میں جو سلوک ہوا ہے اس کے بعدوہ میانہ روی والی سیاست ترک نہ بھی کریں تو پہلے جیسی اعتدال پسندی قائم رکھنا ان کیلئے شایدممکن نہیں ہو گا۔ ہماری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ پاکستان کے باسی عام ووٹروں میں سے شاید کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں ہو گاجو کرپشن کا حامی ہو۔ پاکستان کا بچہ بچہ ملک کو کرپشن سے پاک دیکھنا چاہتا ہے لیکن اس کیلئے بلاامتیاز احتساب ضروری ہے۔ پانامہ سکینڈل میں جونام سامنے آئے تھے کون نہیں جانتا کہ ’’شریف خاندان‘‘ کے علاوہ ان میں سے کسی کیخلاف احتساب احتساب کی کاروائی نہیں ہوئی ۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ وزیراعظم کو پہلے کٹہرے میں لانے کا اصول کیا صرف نواز شریف کیلئے تھا۔ ہیلی کاپٹر کیس اور پارٹی فنڈنگ کیس میں کیا موجودہ وزیراعظم احتساب ضروری نہیں۔ دیگر پی ٹی آئی کے زعماء بھی نیب کیلئے مطلوب نہیں ہیں ، نہ ہی انہیں گرفتار کیا جاتا تو پھر ان حالات میں کیا کہا جائیگا ماسوائے اسکے کہ احتساب بلاامتیاز نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان برملا چیئرمین نیب کی کارکردگی پرسوال اٹھائیں اور انکی سُست روی پر انکی ملامت کریں ، وہ کہیں کہ نیب میرے نیچے ہوتا تو اب تک 50 لوگ اندر ہوتے تو کیاعام تاثر یہی نہیںابھرے گا کہ وہ چیئرمین نیب کو تلقین کررہے ہیں کہ ان لوگوں کو پکڑو۔ جن لوگوں کو پکڑنے کا ذکر وزیر اعظم صاحب کے رفقاء کر رہے ہیں جبکہ اُنکا تعلق مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے۔اس صورتحال پر حکومت اورنیب پر انگلیاں نہیں اُٹھیں گی تو اور کیا ہو گا۔ آج وزیراعظم عمران خان کو عوام کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت کا اندازہ نہیں تو بہت جلد ہو جائیگا کیونکہ بقول فواد چودھری صاحب 25 جولائی کا الیکشن مڈل کلاس کاانقلاب ہے۔ کون نہیںجانتا کہ مڈل کلاس پاکستان کا وہ مظلوم طبقہ ہے جو تمام دیگر طبقات سے زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔ اس طبقے کوحکومت کی طرف سے ریلیف دیاجانا ضروری ہے اگر ووٹ دینے کی مہربانی کرنیوالے اس طبقے کویوں ہی مہنگائی کی چکی میں پیسا جاتا رہا تو وہ اس دلیل کو رد کردینگے کہ یہ حالات دو پچھلی حکومتوں کے پیدا کردہ ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ مڈل کلاس نے آپ کو ووٹ آپ کے لیکچر سُننے کیلئے نہیں بلکہ پچھلی دو حکومتوں کے پیدا کردہ برے حالات سے نکالنے کیلئے دئیے ہیں۔ سو آپ کو 5 سال میں 50 لاکھ گھر بنا کر دینے کے ہوائی نعروں سے اجتناب کرنا ہو گا۔ ایک سال میں 10 لاکھ گھر بنا کر دینا خالہ جی کا گھر نہیں اور پھر آپ کون سا وہ گھر مفت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دس ہزار روپے ماہوار قسط دینے کی استطاعت بیس پچیس ہزار روپے مہینہ تنخواہ پانے والوں کے پاس کہاں ہو گی ۔ آپکے بنائے ہوئے گھروں کواشرافیہ ہی نے خرید کر اپنی جائیدادوں میں اضافہ کرنا ہے تو مڈل کلاس اور غریب کا اللہ ہی حافظ ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...