کشمیریوں کی جدوجہد کو دبائے رکھنا اب مودی کے بس میں نہیں: خورشید قصوری

Oct 16, 2019

لاہور (پ ر) پاکستان کے سابق وزیر خارجہ میاں خورشید محمود قصوری نے کہا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکی ہے جہاں اب اسے دبائے رکھنا بھارتی وزیراعظم مودی کے لئے ممکن نہیں رہا۔ لاہور میں انسٹی ٹیوٹ آف ڈیموکریٹک ایجوکیشن اینڈ ایڈووکیسی کے زیراہتمام مسئلہ کشمیر اور مستقبل کی راہیں کے موضوع پر ہونے والے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہونے والی متعدد پاکستان بھارت جنگیں بھی مسئلہ کشمیر حل نہیں کرسکی تھیں اس لئے اب مسئلہ کشمیر پاکستان بھارت مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ بھارتی وزیراعظم مودی کی طرف سے مستقبل قریب میں پاک بھارت مذاکرات پر آمادگی کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں لیکن زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ وزیراعظم مودی یا ان کے بعد آنے والے حکمرانوں کو مذاکرات کی طرف ہی آنا ہوگا۔ کشمیر کی جدوجہد کرکٹ کے ون ڈے میچوں کی طرح نہیں ہے بلکہ پاکستان کو سفارتی محاذ پر ایک لمبی اننگ کھیلنے کیلئے تیار رہنا چاہئے اور اس عمل کو جس کا آغاز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر پاکستان کی طرف سے کردیا گیا ہے مزید آگے بڑھانا چاہئے۔ مودی کے ظالمانہ اقدامات نے کشمیری جماعتوں کو بھارتی حکومت کے خلاف متحد کردیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی قوتیں سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر کشمیر کے معاملے میں قومی اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں مودی کے مظالم جاری رہے تو پھر وہاں بڑے پیمانے پر خونریزی کا خطرہ ہے اور اس کے نتیجے میں کشمیر میں سول نافرمانی کی تحریک بھی شروع ہوسکتی ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے کیلئے پاکستان کے امیج کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ قانونی ماہر پروفیسر ہمایوں احسان نے کہا کہ عالمی برادری بدقسمتی سے اپنے مفادات دیکھتی ہے اور کمزور ملکوں کیلئے عملی اقدامات نہیں اٹھاتی۔ مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے پاکستان کو مضبوط کرنا ہوگا۔ سیاسی طور پر غیرمستحکم اور معاشی طور پر کمزور پاکستان عالمی برادری میں کشمیر کے مسئلے پر مطلوبہ حمایت حاصل نہیں کرسکے گا ان کے مطابق کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے جنگ کوئی آپشن نہیں۔ دونوں ملکوں کو بات چیت کی طرف آنا ہوگا۔ اس موقع پر دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ، سینئر تجزیہ نگار سلمان عابد، سابق رکن قومی اسمبلی مہناز رفیع اور دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر ریٹائرڈ فاروق حمید نے بھی خطاب کیا۔

مزیدخبریں