ہمارے ہاں مگر کو ئی ’’بینرجی‘‘ موجود نہیں

اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم سے کہیں زیادہ خوفناک فسطائی سوچ ہوا کرتی ہے۔ یہ کسی ملک پر مسلط ہوجائے تو اس کے شہریوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اذہان بند کئے صرف ایک نظریہ یا سوچ کی کامل تابعداری کریں۔سوچنے سمجھنے سے محروم ہوئے جانوروں کی طرح۔فسطائی نظام کی ابتداء میں اگرچہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک طبقے یا مذہبی گروہ کو ’’دشمن(The Other)‘‘قرار دے کر بقیہ قوم کو ’’متحد‘‘ کیا جارہا ہے۔ہٹلر کا نازی ازم مثال کے طورپر نظربظاہر فقط ’’یہودی دشمن‘‘ تھا۔بتدریج اس نے مگر پوری جرمن قوم کو جنونی اور ذہنی اعتبار سے مفلوج بنادیا۔
ہمارے ہمسایے میں مودی سرکار کی ’’وطن پرستی‘‘ بھارتی مسلمانوں اور مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو فی الوقت اپنا شکاربناتی نظر آتی ہے۔پیر کے روز بھارتی سوشل میڈیا پر کئی گھنٹے صرف کرنے کے بعد مگر دریافت ہوا ہے کہ BJPکی پھیلائی فسطائیت اب نازیوں کی طرح خود سے اختلاف کرنے والے کسی شخص کو بھی معاف کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہے۔
گزشتہ کئی مہینوں سے میں خود کو دُنیا سے کاٹ کر عملی اعتبار سے اپنے کمرے تک محدود ہوچکا ہوں۔وقت کی فراوانی میں کتابیں پڑھ لیتا ہوں۔سوشل میڈیا کو تحقیقی نگاہ سے دیکھنے کی عادت اپنارہا ہوں۔پیر کی سہ پہر خبر آئی کہ بھارت کے ایک ماہر معیشت کو دو مزید ماہرین سمیت نوبل انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے۔
علم معاشیات کی مبادیات سے بھی نابلد ہوں۔ وطن عزیز پر مسلط ہوئی مہنگائی،بے روزگاری اور کسادبازاری سے فکر مند ہوا اکثر اس لگن میں مبتلا رہتا ہوں کہ مندی کی حقیقی وجوہات سمجھ سکوں۔ اسی باعث معاشیات کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش بیدار ہوئی۔ اس وجہ سے یہ جاننا چاہا کہ بھارتی ماہر معیشت کو نوبل انعام کا حقدار کیا’’دریافت‘‘ کرنے کی وجہ سے ٹھہرایا گیا۔یہ جاننے کے لئے سوشل میڈیا پر بھارتی اخبارات وغیرہ سے رجوع کرنا ضروری تھا۔
ٹویٹر اکائونٹس سے سفر کا آغاز کیا۔معلوم ہوا کہ جس بھارتی کو نوبل انعام ملا ہے اس کا نام ڈاکٹر ابھی جیت بینرجی ہے۔نام ہی بتارہا تھا کہ وہ بنگالی ہے۔اس کی شادی امریکہ میں بسی ایک فرانسیسی خاتون سے ہوئی ہے۔ Esther Dufloاس خاتون کا نام ہے۔اسے بھی نوبل ا نعام کا شراکت دار بتایا گیا ہے۔ان دونوں نے باہم مل کر غربت کے حقیقی اسباب کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔اسے جاننے کے لئے جو طریقِ تحقیق (Methodology)استعمال کی وہ مختلف بیماریوں کی تشخیص وتدارک کے لئے سائنسدان لیبارٹری میں استعمال کرتے ہیں۔انعام کا حق دار دراصل ان کا طریقِ تحقیق ہے جسے تخلیقی قرار دیا گیا۔
میری خواہش تھی کہ سادہ زبان میں لکھا کوئی ایسا مضمون مل جائے جسے پڑھوں اور اس کی بدولت آپ کو بیان کرسکوں کہ ان دونوں کا طریقِ تحقیق کیا تھا۔ اپنی تحقیق سے غربت جیسے ’’موذی مرض‘‘ کی انہوں نے کیا وجوہات تلاش کیں۔اس کے تدارک کے لئے کونسے نسخے تجویز کئے۔
یہ جاننے کے لئے ٹویٹر پر کئی گھنٹے لگانے کے باوجود میں کوئی مناسب جواب تلاش نہیں کر پایا۔بھارت میں خواتین کے حقوق کی چمپئن لکھاریوں کو فکر یہ لاحق تھی کہ Esther Dufloکا نام کیوں نہیں لیا جارہا۔فقط یہ اطلاع کیوں دی جارہی ہے کہ بینر جی کو اس کی ’’بیوی سمیت‘‘ نوبل انعام دیا گیا ہے۔ ان خواتین کا غصہ میرے ذہن میں امڈے سوالات کا جواب فراہم نہیں کررہا تھا۔
مودی کی اندھی محبت میں مبتلا لوگ مگر اپنے ہم وطن بینر جی کو انعام ملنے پر ہرگز شاداں نہیں تھے۔ان کا اصرار تھا کہ ’’بھارت دشمن گورے سامراجیوں‘‘ نے بینر جی اور اس کی اہلیہ کو نوبل انعام اس لئے دیا کیونکہ انہوں نے بھارت کو غربت کے حقیقی اسباب جاننے کے لئے ایک لیبارٹری کی صورت منتخب کیا۔ یہ رویہ Shining Indiaکی نفی کرتا ہے۔بھارت کو ایک غریب اور پسماندہ ملک دکھانے کو بضد ہے۔
اپنے دعویٰ کو سچا ثابت کرنے کے لئے مودی کے پرستاروں نے یہ سراغ بھی لگالیا کہ بینر جی نے دلی کے جواہر لال یونیورسٹی (JNU)میں تعلیم حاصل کی تھی۔ RSSکے انتہاء پسند اس یورنیورسٹی سے بے پناہ نفرت کرتے ہیں۔اس کے طالب علم اکثر مقبوضہ کشمیر کے عوام سے ہمدردی کے اظہار کے مرتکب ہوتے ہیں۔لہذا یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ JNUدرحقیقت ایک ’’غدارساز‘‘ فیکٹری ہے کوئی علمی ادارہ نہیں۔
مزید تحقیق کی تو دریافت یہ بھی ہوا کہ بینر جی کا ’’اصل جرم‘‘ یہ ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے وہ بھارتی معیشت کے بارے میں مسلسل فکرمندی کا اظہار کررہا ہے۔مودی نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں نوٹ بندی کا جو ’’انقلابی‘‘ قدم اٹھایا تھا اسے بینرجی نے بھارتی معیشت کے لئے زہر قاتل قرار دیا۔ حالیہ بھارتی انتخابات کے قریب مودی کی مخالف کانگریس نے اپنا منشور تیار کرنے کے لئے اس سے بھی رجوع کیا تھا۔ بینر جی کی تجویز پر راہول گاندھی نے وعدہ کیا کہ اسے اقتدار مل گیا تو بھارت کے ہر غریب گھرانے کو سرکار ہر مہینے چھ ہزار روپے ماہانہ فراہم کرنا یقینی بنائے گی۔ ہمارے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسا ایک منصوبہ۔ مودی کے پرستاروں نے اب کہانی یہ گھڑی کہ بینر جی کو اس کے ’’سامراجی سرپرستوں‘‘ نے درحقیقت ’’کانگریس نوازی‘‘ کی بدولت نوبل انعام کا حقدار ٹھہرایا۔
ٹویٹر پر بے تحاشہ بھارتی اکائونٹس پر کئی گھنٹے گزارنے کے باوجود لیکن میں یہ جان ہی نہیں پایا کہ بینر جی اور اس کی اہلیہ Esther Dufloنے غربت کا جائزہ لینے کے لئے کونسا ’’تخلیقی‘‘ یا ’’نیا‘‘ طریقِ تحقیق اختیار کیا۔ ان کی تحقیق نے غربت کی کیا وجوہات دریافت کیں۔ان کے تدار ک کے لئے کونسے نسخے تجویز کئے۔ ہر ٹویٹر اکائونٹ پر فقط نفرت تھی۔ سازشی کہانیوں کا انبار تھا۔ انہیں دیکھتے ہوئے مجھے نفرت کا وہ طوفان یاد آتا رہا جو ہمارے ہاں ملالہ یوسف زئی کا دہشت گردوں کی گولی کا نشانہ بننے کے باوجود مقدر ہوا تھا۔
بینر جی کے خلاف نفرت کے سیلاب کا جائزہ لیتے ہوئے دریافت یہ بھی ہوا کہ نوبل انعام کا اعلان ہونے سے چند ہی ماہ قبل اس نے امریکہ کی ایک مشہور یونیورسٹی میں ایک لیکچر دیا تھا۔ وہاں اس سے یہ سوال ہواکہ بھارتی معیشت کو صحت مند بنانے کے لئے کونسے اقدامات ضروری ہیں۔اس نے تفصیلی جواب دینے سے قبل پہلا فقرہ یہ کہا کہ ’’فی الحال دُعا کیجئے‘‘۔ اس کے بعدآئے سوال کے جواب میں بھی اس نے کہا کہ ’’مزیددُعا کیجئے‘‘۔ بینر جی کے ’’دُعا‘‘ والے فقرے کو سیاق وسباق سے الگ کرتے ہوئے اسے بھارت کو ’’بدنام‘‘ کرتا ’’غدار‘‘ ثابت کرنے کی کوشش ہوتی رہی۔کسی ایک شخص نے یہ بیان کرنے کی زحمت گوارہ نہ کی کہ بینر جی نے بعدازاں اسی لیکچر کے دوران بھارتی معیشت کی بحالی کے لئے ایک تفصیلی نسخہ بھی بیان کیا تھا۔
اس کا اصرار تھا کہ نوٹ بندی نے بھارتی معیشت میں کسادبازاری کی بنیاد ڈالی ہے۔ اس کے بعد تاجروں سے جنرل سیلز ٹیکس کو جمع کرنے کے لئے بھونڈے ہتھکنڈے اپنائے گئے۔ کسانوں کو ریاست نے Subsidyدینا بند کردی۔ دیہات میں کسان اپنی زمین یا مزدوری سے گزارے کی رقم حاصل نہ کرپائیں تو شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔ شہروں میں وہ زیادہ تر مکانات وغیرہ کی تعمیر میں دیہاڑی داروں کی طرح کام کرتے ہیں۔بھارتی سرکار کے اقدامات نے مگر پراپرٹی کا دھندا بھی تباہ کردیا ہے۔چھوٹے درجے کا اور بے زمین کسان اب شہروں میں روزگار مہیا نہ ہونے کے سبب اپنے گائوں واپس جارہا ہے۔ غریب سے غریب تر ہورہا ہے۔بینر جی کا یہ لیکچر سنتے ہوئے مجھے وطنِ عزیز کا خیال آیا۔ ہمارے ہاں بھی Documentation Driveہے۔ احتساب والوں کی پکڑدھکڑ ہے۔تاجر سڑکوں پر نکل ا ٓئے ہیں۔IMFسے ہوا معاہدہ ہے۔ FATFکی تلوار ہے۔پراپرٹی کا دھندا ٹھپ ہوچکا ہے۔بیروزگاری اور مہنگائی کا سیلاب ہے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ مگر ’’اچھے دنوں‘‘ کی امید دلائے چلے جارہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر اس کے باوجود ہمیں مزید مہنگائی کے لئے تیار کررہے ہیں۔ہمارے ہاں مگر کوئی ’’بینر جی‘‘ موجود نہیں۔کبھی کبھار ڈاکٹر حفیظ پاشا ایک دل دہلا دینے والا مضمون لکھ دیتے ہیں۔ندیم الحق اکثر بازار کی مندی کا تذکرہ کرتے ہیں۔میرے اور آپ کے ووٹوں سے اسمبلی میں پہنچنے سیاست دان مگر حکومت کو ٹھوس سوالات کا جواب فراہم کرنے کو مجبور نہیں کررہے۔ پروڈکشن آرڈر کی دہائی مچائی جاتی ہے۔اب پریشانی یہ لاحق ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے مارچ یا دھرنے کی حمایت ہو تو ’’کس حد‘‘ تک ہو۔ مسلسل بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کے حقیقی اسباب اور ان کے تدارک پر نہ میڈیا کی توجہ ہے نہ سیاست دانوں کی۔

ای پیپر دی نیشن