اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) پی اے سی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سال1999سے سال 2004 تک کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیاکمیٹی نے انتہائی کم مالیت کے آڈٹ اعتراضات ڈیپارٹمنٹل اکاونٹس کمیٹی میں طے نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہویٔے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو وصول نہ ہونے والی رقوم کی معافی کے عمل کو جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ چھ سالوں کے آڈٹ اعتراضات کے حوالے سے نوے فی صد تک کام مکمل کیا جا چکا ہے۔ جو رقوم وصول نہیں ہوسکی انکی بنیادی وجہ مقدمات کا عدالتوں میں زیر التوا ہونا ہے، کنونیر کمیٹی نے کہا کہ1999سے تین لاکھ کا آڈٹ پیرا چل رہا ہے یہ کیا ہے؟ رکن کمیٹی کے رکن راجہ پرویز اشرف نے کہا کہا1999 سے آج تک کیا کوئی اجلاس نہیں ہوا،کیا ہم اس معاملے کو سیریس نہیں لیں گے؟کنونئیر کمیٹی رانا تنویر الحسن نے کہا کہ ایف بی آر میں اصلاحات کیلئے بیرون ملک سے بھی کسی دور میں چیئرمین لایا گیا جسکا کھانا بھی اسلام آباد کے اچھے ہوٹل سے جاتا تھا لیکن آج تک ریفارمز نہ ہوئی1999 سے پیراز چل رہے ہیں میرابس چلے تو سب سیٹل کر دوں اتنے پرانے پیراز چل رہے ہیںبتایا جائے کہ ڈی اے سی پر کیا کام ہو اہے اس معاملے پر چیئرمین ایف بی آر کو ہیڈ کرنا چاہیے۔ جس پر ممبر ایف بی آر نے بتایا کہ چیئرمین ایتنی دیر غیر حاضر نہیں رہ سکتے جس پر کنوینئرکمیٹی رانا تنویر کا کہناتھا کہ کیا تین لاکھ ریکوری کے معاملے کیلئے اب 20 سے 30سال کا وقت چاہیے ہو گا۔اس آڈٹ پیرا کے معاملے کو سیٹل کریںانہوں نے اظہا ربرہمی کرتے ہوئے کہاکہ ایف بی آر ڈی اے سی سطح پر کیسے کام کرتاہے ز یر التوا کیسز کی پیروی اور سیٹلمنٹ کریں،۔ایف بی آر حکام کا موقف تھا کہ ممبر سطح کا افسر ایف بی آر کی ڈی اے سی کی سربراہی کرتا ہے،چیئرمین کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ دیگر فارمیشنز میں جا سکے اپنے آڈٹ اعتراضات پر 80 فیصدتک کام کر چکے،ان میں بعض کیسز عدالتوں میں ہیں۔چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے اجلا س کو بتایا کہ عدالتوں میں بڑی تعداد میں ٹیکس کیسز زیر التوا ہیںآڈٹ حکام نے کمیٹی میں بتایا کہ گلگت کلاتھ مارکیٹ کیلئے کسٹم حکام نے 86 لاکھ کی رشوت لیکر کپڑا آنے دیا، اور ٹیکس چوری ہو ئی اس میں سٹاف کو میجر پنلٹی ہونی چاہیے جس پر ایف بی آر کا موقف تھا کہ86 لاکھ ڈیوٹی کی ریکوری ہو گئی ہے سزا بھی دی گئی ہے ملوث افسران کو اس موقع پر کمیٹی نے چیئرمین ایف بی آرکو ہدایت کی اس انکوائری رپورٹ کو دوبارہ دیکھا جائے۔