ماں جی کو رخصت ہوئے دو برس بیت گئے ہیں، مگر ہر پل، ہر لمحہ، ہر گھڑی انکی یاد دل ودماغ کو مسخر کیے ہوئے ہے_وہ ہر وقت میرے خوابوں اور خیالوں میں ہمکلا م رہتی ہیں _جہا ں ماں جی کا پرنور چہرہ اور باوقار شخصیت ہر وقت تصور ات کو جلا بخشے رکھتا ہے، وہیں ان کا سحر انگیز طرز تکلم سماعت سے ہم آہنگ رہتا۔ یتیمی کے دو سالوں سے ان کی خواب گاہ کا مجا ور بنے بیٹھا ہوں _بیٹی کی رخصتی پر وہ اسقدر شدت سے یاد آ ہیں کہ بار بار دل بھر آتا - مشکل گھڑی میں حوصلہ دینے والی ہستی سے محرومی کا ازالہ کرنا ناممکن تھا - آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے
آپ کے ساتھ ہی گزارا ی ہے
جب بھی دل ودماغ کا رخ زندگی کے دوسرے معاملات کی طرف پھرتا ہے بہن بھائیوں، بیوی بچوں، دوست احباب سے کسی بھی موضوع پر بات جیت کر تاھوں تو بہا نے بہانے آپ کے متعلق بات جیت کرنا شروع کر دیتاہوں-
تمہاری یا د کے زخم جب بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
ماں جی! آپ اچانک عازم زندگی ہویں آپ تو یوں چلے گئیں جیسے بقول شہزاد احمد
رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے، یہ بھی بتا کر نہیں گیا
وہ یوں گیا کہ باد صبا یاد آگئی
احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا
ماں جی دل ودماغ کو چین نصیب نہیں - خوشی اور غمی، ترقی وتنزلی، عروج و زوال اور بچوں کی زندگی میں ترقی و کامرانیاں سبھی بے معنی ہو گئے ہیں ہماری زندگیوں کی محور ہمیشہ سے آپ تھیں اور رہے گی_
ایسا کہاں سے لاؤں جو تجھ سا کہیں جسے
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
ماں جی اللہ آپ کے درجات بلند کرے اور آپ والد صاحب کے ساتھ جنت میں سکھ اور چین سے رہیں۔
دوست احباب سے گزارش ہے کہ میری ماں جی کی روح کے ایصال ثواب کیلئے تین مرتبہ سورت الفاتحہ اور قل شریف پڑھ کر مغفرت کی دعا کریں۔
ماں تجھے سلام…
مائے نی میں کنوں آکھاں۔۔۔!!!
مائے نی میں کنوں آکھاں
درد وچھوڑے دا حال نی۔۔۔
دکھاں دی روٹی، سولاں دا سالن
آہیں دا بالن بال نی
مائے نی میں کنوں آکھاں‘
درد وچھوڑے دا حال نی۔۔۔
جنگل بیلے پھراں ڈھونڈیندی
اجے نا پائو لال نی
مائے نی میں کنوں آکھاں
درد وچھوڑے دا حال نی۔۔۔
دھواں دکھے میرے مرشد والا
جاں پھولاں تاں لال نی
مائے نی میں کنوں آکھاں‘
درد وچھوڑے دا حال نی۔۔۔
کہے حسین فقیر سائیں دا
شوہ ملے تاں تھیواں نہال نی
مائے نی میں کنوں آکھاں‘
درد وچھوڑے دا حال نی۔۔۔
٭٭٭