نیب انسداد بدعنوانی کا معتبر ادارہ، کار کردگی کو ملکی، بین الاقوامی تنظیموںنے سراہا

اسلام آباد (نامہ نگار)  قومی احتساب بیورو نے روزنامہ ڈان میں ادارتی صفحہ پر 15 اکتوبر  2020ء کو نیب سے متعلق  آئی اے رحمان کے آرٹیکل، بعنوان   "نیب مقابلہ انسانی حقوق" کو حقائق کے منافی، بے بنیاد، من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ روزنامہ ڈان جیسے ادارے کو قومی احتساب بیورو کے بارے میں حقائق کے منافی اور یک طرفہ آرٹیکل نیب کا موقف لئے بغیر شائع کرنا نہ صرف صحافتی بد دیانتی کا ثبوت ہے بلکہ نیب کی ساکھ کو بھی متاثر کرنے کی ناکام کوشش ہے جس کی نیب سختی سے مذمت کرتا ہے۔روزنامہ ڈان جس کی بنیاد بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے رکھی تھی اور جنہوں نے بد عنوانی اور اقربا  پروری کو لعنت قرار دیا تھا۔ ایسا ادارہ جب کسی تحقیق /ریسرچ اور حقائق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حقائق کے منافی کسی اداریہ اور مضمون کو اپنے ادارتی صفحہ پر شائع کرتا ہے تو اس سے نہ صرف وہ صحافتی اقدار کو پامال کرتا ہے بلکہ مروجہ قوانین کی بھی مبینہ طور پر خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے جو کسی بھی اخبار سے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ کسی بھی قومی ادارے کے متعلق خبر یا مضمون شائع کرنے سے پہلے قانون کے مطابق اس کا موقف معلوم کیا جائے اور بے بنیاد، من گھڑت اور حقائق کے منافی پروپیگنڈا سے گریز کیا جائے۔ نیب نے روزنامہ ڈان کو زبانی، تحریری اور مختلف وضاحتوں میں بارہا کہا ہے کہ نیب سے متعلق کسی بھی خبر /مضمون/ اداریہ کو شائع کرنے سے پہلے نیب کا قانون کے مطابق موقف لیا جائے۔ اور یک طرفہ پراپگینڈا سے گریز کیا جائے مگر روزنامہ ڈان نے نیب کی کسی بھی بات کو خاطر میں نہیں لایا اور نیب کے خلاف عرصہ دراز سے بلا جواز مسلسل یک طرفہ پراپیگنڈا مہم جاری ہے۔ اس کے باوجود کہ روزنامہ ڈان 18جون 2015ء کو نیب سے متعلق جھوٹی خبر شائع کرنے پر معذرت کر چکا ہے۔ مزید برآں نیب کی 23فروری 2016ء کی وضاحت  (لیٹر ٹو ایڈیٹر"-مدیر کے نام خط) میں 25فروری 2016ء کو شائع کیا جو کہ قانون اور انصاف کے اصولوں کے منافی تھا کیونکہ قانو ن کے مطابق اخبار خبر جس صفحہ پر جتنی نمایاں کر کے شائع کرتا ہے اس خبر کی وضاحت بھی اسی صفحہ پر اتنی نمایاں شائع ہونی چاہیے مگر روزنامہ ڈان نے نہ صرف قانون و انصاف کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھا بلکہ نیب کے موقف اور آواز کو دانستہ طور پر دبانے کی کوشش کی۔ نیب انسداد بدعنوانی کا معتبر قومی ادارہ ہے جس کا مقصد ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ اور بد عنوان عناصر سے قوم کی لوٹی گئی رقوم کی واپسی ہے۔ نیب نے اپنے قیام سے اب تک 466ارب روپے بدعنوان عناصر سے بالواسطہ اور بلا واسطہ بر آمد کر کے قومی خزانہ میں جمع کروائے ہیں جوکہ ایک ریکارڈ کامیابی ہے۔ قومی احتساب بیورو کا مجموعی طور پر سزا دلوانے کی شرح تقریباََ68.8 فیصد ہے۔ نیب کی کارکردگی کو ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل پاکستان، ورلڈ اکنامک فورم، پلڈاٹ، مشال پاکستان جیسی معتبر قومی اور بین الاقوامی تنظیموں نے سراہا ہے۔ مزید بر آں گیلانی اینڈ گیلپ سروے کے مطابق 59فیصد لوگ نیب پر اعتماد کرتے ہیں۔ نیب اس وقت اقوام متحدہ کے انسداد بد عنوانی کے کنونشن (UNCAC) کے تحت پاکستان کا فوکل ادارہ ہے۔ جو کہ نیب کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے پاکستان کیلئے اعزاز کی بات ہے۔ نیب اس وقت سارک انٹی کرپشن فورم کا چئیرمین ہے جس کی وجہ نیب کی موثر اینٹی کرپشن حکمت عملی ہے جس کو سارک ممالک نے نہ صرف سراہا بلکہ پاکستان آج اس کا پہلا چئیرمین ہے۔ مزید برآں پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جس کے ساتھ چین نے انسداد بد عنوانی خصوصاً پاکستان میں سی پیک کے منصوبوں کو شفاف بنانے کے سلسلے میں ایک ایم او یو پر سائن کئے ہیں جوکہ نیب کی وجہ سے پاکستان کی لئے ایک اعزاز کی بات ہے۔ نیب کے اس وقت معزز احتساب عدالتوں میں تقریباً  1230  بدعنوانی کے ریفرنس بھی کی احتساب عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جن کی تقریباً مالیت 943ارب روپے ہے۔ جہاں تک روزنامہ ڈان  میں ادارتی صفحہ پر 15 اکتوبر  2020ء کو نیب سے متعلق آئی اے رحمان کے آرٹیکل، بعنوان   "نیب مقابلہ انسانی حقوق"  کا تعلق ہے، اس میں روزنامہ ڈان نے بغیر کسی تحقیق/ ریسرچ کے ایک جھوٹی اور بے بنیاد رپورٹ کی بنیاد پر ملک کے ایک معتبر ادارے نیب کو اپنے ادارئیے میں ہدف تنقید بنایا جس کی نیب سختی سے مذمت کرتا ہے۔ قومی احتساب بیورو انسداد بدعنوانی کا معتبر قومی ادارہ ہوتے ہوئے ایک انسان دوست اداراہ ہے جس کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے اپنے منصب کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ نیب میں آنے والے ہر شخص کی عزت و احترام کو یقینی بنایا جائے گا۔ نیب کے افسر /اہلکاران کا تعلق کسی پارٹی،گروہ یا فرد سے نہیں بلکہ ان کی وابستگی صرف اور صرف پاکستان سے ہے۔ چئیرمین نیب نے ہمیشہ نیب کے تمام افسروں کو آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دینے، انسانی حقوق کی پاسداری اور ہر شخص عزت نفس کو یقینی بنانے کی ہدایات جاری کیں جو کہ روزنامہ ڈان سمیت ملک کے تمام معتبر اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں جن پر سختی سے عمل کیا جا رہا ہے۔ قومی احتساب بیورو نے انتہائی دو ٹوک اور واضح الفاظ میں ایک بار پھر وضاحت کی ہے کہ نیب کی تحویل میں آج تک کسی شخص کا انتقال نہیں ہوا کیونکہ جب بھی کوئی ملزم نیب کی تحویل میں لایا جاتا ہے تو سب سے پہلے اسکا مکمل میڈیکل چیک اپ کیا جاتا ہے اور ڈاکٹر کی ہدایات پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ جہاں تک میاں جاوید احمد کا تعلق ہے تو وہ نیب کی تحویل میں نہیں تھے۔ ان کا انتقال عدالتی تحویل میں کیمپ جیل لاہور میں ہوا۔ اس لئے نیب کے حوالہ سے شائع شدہ خبر مکمل طور پر بے بنیاد اور اس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ واضح رہے کہ میاں جاوید احمد پروفیسر نہیں تھا بلکہ ایک غیر قانونی کیمپس کا مالک تھا جو سرگودھا یونیورسٹی کا نام غلط طریقے سے استعمال کر رہا تھا۔ ان کے خلاف سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی جانب سے شکایت درج کرائی گئی تھی کہ وہ سرگودھا یونیورسٹی کے نام اور انداز میں غیر قانونی کیمپس چلا رہے ہیں۔ یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ انہوں نے معصوم طلبہ  سے لاکھوں روپے بٹورے اور انہیں خواب دکھایا کہ وہ تعلیمی سال مکمل ہونے پر انہیں ڈگری دیں گے جو کہ انہیں کبھی نہیں دی گئی۔ یہ حقیقت روز نامہ دی نیوز لاہور اور روزنامہ فرنٹیئر پوسٹ لاہور میں 21 دسمبر 2018کو شائع کی گئی۔ نیب نے انسانی حقوق کے بارے میں قومی کمیشن کے وفد کو دعوت دی جس نے چیئرمین این سی ایچ آر جسٹس علی نواز کی قیادت میں نیب لاہور کے دفتر کا دورہ کیا۔ این سی ایچ آر کے وفد کو نیب لاہور کے دورہ کے دوران تحویل میں لئے گئے  ملزموں کو فراہم کی گئی سہولیات سے متعلق آگاہ کیا۔ انسانی حقوق سے متعلق قومی کمیشن نے نیب کی تحویل میں ملزمان کو فراہم کی گئی سہولیات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ مزید برآں نیب لاہور نے جنگ گروپ، ڈان گروپ، دنیا گروپ سمیت تمام بڑے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے سینئرز صحافیوں کو بھی دعوت دی۔ انہوں نے بھی نیب لاہور کی جانب سے فراہم کی گئی سہولیات پر اطمینان ظاہر کیا۔  نیب نے جنگ گروپ کے میر شکیل الرحمن سے متعلق الزامات کو واضح طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب میڈیا کی آزادی پر بھرپور یقین رکھتا ہے اور قانون کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ میر شکیل الرحمن کو قانون کے مطابق گرفتار کیا گیا اور اگلے دن متعلقہ احتساب عدالت لاہور میں پیش کیا گیا جہاں نیب نے گرفتاری کی وجوہات بتائیں۔ معزز احتساب عدالت لاہور نے فریقین میر شکیل الرحمن اور نیب کے دلائل سننے کے بعد قانون کے مطابق ان کا جسمانی ریمانڈ دیتے ہوئے نیب کے حوالے کیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے دو بار میر شکیل الرحمن کی درخواست مسترد کی۔ وہ نیب کی تحویل میں نہیں ہیں۔ احتساب عدالت لاہور نے انہیں عدالتی ریمانڈ پر بھیجا ہے۔ نیب نے قانون کے مطابق متعلقہ احتساب عدالت لاہور میں ان کے خلاف بدعنوانی کا ریفرنس دائر کیا ہے اور اب یہ عدالتی معاملہ ہے۔ نیب روزنامہ ڈان کی طر ف سے نیب کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا مہم کی سخت مذمت کرتا ہے اور ایک بار پھر روزنامہ ڈان کو یہ باور کراتا ہے کہ نیب سے متعلق کوئی بھی خبر شائع کرنے سے پہلے قانون کے مطابق نیب کا موقف ترجمان نیب سے لیا جائے اور اسے من وعن شائع کیا جائے جو کہ نیب کا قانونی حق ہے۔ مزید برآں نیب نے سحر کامران کے خلاف نیب کے متعلق بے بنیاد، من گھڑت اور حقائق کے منافی پراپگینڈا رپورٹ کے ذریعے نیب میں جاری تحقیقات پر اثر انداز ہونے اور نیب کی ساکھ کو متاثرکرنے پر قانون کے مطابق کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن