حضرت عمرؓ اور خالد بن ولید کی مثال دینے کی ضرورت کیا تھی

کچھ عرصہ سے حکومت اور اپوزیش دونوں کی نااہلی کی وجہ سے سیاست سے دلچسپی کم رہی اور ہم نے بھی کچھ نہ لکھا ۔لیکن وزیراعظم عمران خان کی تقریر کے ایک حصہ نے جو ٹی وی پر بار بار دکھایا گیا، چونکا دیا ۔ یہ تقریر وزیر اعظم عمران خان نے سیرت النبی اتھارٹی کے قیام کے اعلان کے موقع پر کی ۔ بار بار دکھائے جانے والے حصے میں  خان صاحب فرماتے ہیں کہ" حضرت عمرؓ نے خالد بن ولید کو فوج کی سربراہی سے ہٹا دیا تھا.خالد بن ولید تاریخ کا سب سے بڑا جرنیل تھا اس نے کبھی جنگ ہاری ہی نہیں تھی لیکن خلیفہ حضرت عمرؓ نے اس سے کہا تم ایک طرف ہو جائو" ۔تقریر کے اس ٹکڑے کا سیاق و سباق خبروں میں نہیں سنایا گیا ۔میں یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ وزیراعظم یہ بات کس کو سنا رہے تھے ؟ سیرت البنی کے اجتماع میںآنے والے لوگوں کو یا فوجی قیادت کو ۔ اس تقریر سے چند روز قبل چند جرنیلوں کی پوسٹنگ اور ڈی جی آئی ایس آئی کی تبدیلی کی خبر  نشر ہوئی تھی اور مجھے اس میں کوئی غیر معمولی بات نظر نہ آئی تھی لیکن اگلے روز میرے ایک مریض جو سیاست کا بھی شوق رکھتے ہیں اور وفاقی وزیر شیخ رشید سے قربت کا دعویٰ کرتے ہیں آنکھوں میں تکلیف کیوجہ سے آئے تو کچھ موجودہ حالات پر تبصرہ کرنے لگے اور بڑے راز دارانہ انداز میں بتایا کہ 72گھنٹے ہو چکے ہیں نئے ڈی جی  آئی ایس آئیکے نام کا اعلان ہو چکا ہے لیکن Notification نہیں ہوا ۔یہ Notificationوزیراعظم کے آفس سے ہو تا ہے ۔اب مجھے سمجھ آیا وزیراعظم حضرت عمران خان حضرت عمرؓ کی مثل اختیارات استعمال کرنا چاہتے ہیں آخر  ہمارے پی ایم  بھی تو ریاست مدینہ (پاکستان) کے آئینی سربراہ ہیں۔اب تو میڈیا ڈی جی  آئی ایس
 آئیکے تقرری کے حوالے سے خبروں سے بھراپڑا ہے ۔پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کے چیف وہپ عامر ڈوگر صاحب نے کابینہ کے اندر کی خبر دی ہے کہ وزیراعظم کی باڈی لینگویج بہت پازیٹو تھی اور وہ بہت پر اعتماد تھے ۔کابینہ میں وزیراعظم عمران خان نے بتایا کہ وہ  فیض حمید کو افغانستان کی صورت حال کیوجہ سے 5یا 6ماہ مزید اس عہدہ پر برقرار رکھنا چاہتے تھے یعنی نئے ڈی جی  آئی ایس آئیکا اعلان ان کے مشورے کے بغیر یا انکی مرضی کے برخلاف کیا گیا ہے ۔ ساتھ ہی عامر ڈوگر صاحب کے حوالے سے بتایا گیا کہ وزیراعظم نے کابینہ میں کہا کہ وہ  منتخب وزیراعظم ہیں اور آرمی چیف بھی بہت قابل احترام ہیں یہ  خان صاحب نے کس کو بتایا ہے کہ وہ…؟ 
وزیراطلاعات فوادچوہدری نے بھی بہت صاف صاف باتیں کیں ۔فرماتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف کے درمیان بہت گہرے تعلقات ہیں او ررات کو انکے درمیان بڑی طویل کئی گھنٹوں پر مشتمل ملاقات ہوئی ہے ۔وزیر اعظم اور ان کی حکومت کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گی جس سے آرمی اور اس کے چیف کی عزت میں فرق آئے ایسے ہی آرمی چیف بھی ایسا کوئی عمل نہیں کریں گے جس سے وزیراعظم عمران خان اور سول حکومت کی عزت میں کمی ہو ۔اور بتایا کہ ڈی جی  آئی ایس آئیکی تقرری قانون کے تمام تقاضے پورے کر کے کی جائیگی اور ڈی جی  آئی ایس آئیکی تقرری وزیراعظم کا استحقاق ہے ۔اب ذرا ان قانونی تقاضوں اور استحقاق کی تفصیل جان لیتے ہیں ۔آئین پاکستان میں افواج کے حوالے سے چار عہدوں کا تقرر حکومت یعنی وزیراعظم اور کابینہ کو کرنا ہو تا ہے ۔یہ چار عہدے آرمی چیف ، ائیرفورس چیف، نیوی چیف اور جوائینٹ چیف آف سٹاف کے ہیں ۔ان چاروں عہدوں کی تقرری کا طریقہ کار طے ہے اور یہ وزیراعظم اور کابینہ کا استحقاق ہے ۔ڈی جی  آئی ایس آئیکی تقرری کے بارے میں نہ تو آئین پاکستان میں کوئی طریقہ موجود ہے اور نہ ہی آرمی ایکٹ میں کوئی مخصوص قانون و طریقہ ہے ۔درحقیقت یہ عہدہ ایک  لیفٹینٹ  جنرل کے رینک کے لیے مختص ہے اور دوسرے لیفٹیننٹ جنریلوں کی طرح اس عہدے پر بھی تقرر اور تبادلے ہو سکتے ہیں ۔لیکن چونکہ ڈی جی   آئی ایس آئیسیکورٹی کے معاملا ت پر وزیراعظم کو بریفنگ دیتا ہے اس لیے روائیتی طور پر اس عہدے پر تقرری وزیراعظم کے مشورہ سے ہوتی ہے اور نوٹیفکیشن بھی وزیراعظم کا آفس نکالتا ہے
 چیف وہپ عامر ڈوگر اور وزیراطلاعات کی فرمودات کے مطابق سارے معاملے کے باوجود وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف کے درمیان بہترین تعلقات موجود ہیں اور کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ملٹری اور سول حکومت ایک پیج پر ہیں اور جلد یہ تقرری بھی قانون کے مطابق عمل میں آجائے گی ۔حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم  عمران خان حضرت عمر ؓ کی طرح کے اختیارات چاہتے ہیںاور وہ یہ بھول گئے ہیں کہ وہ وزارت عظمی تک کیسے پہنچے ؟آج ہی ان کے پرانے ساتھی جہانگیر ترین اپنے جہاز کے استعمال سے حکومت بنانے کا ذکر کررہے تھے۔موجودہ حالات میں ان لوگوں کو یقینا کچھ شرمندگی محسوس ہو رہی ہو گی جو نواز شریف پر الزامات لگا تے رہے ہیں کہ ان کی کسی آرمی چیف سے نہیں بنتی ۔حقیقت یہ ہے کہ بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ وزیراعظم کو جمہوریت اور سول حکمرانی کے لیے کسی بات پر سٹینڈ لینا پڑ جاتا ہے ۔ایک رائے یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو اندازہ ہو گیا ہے کہ ان کی ’’کارکردگی ‘‘کے باعث آئندہ فوج ان کی مدد نہ کرے گی ۔موجودہ حالات میں اگر  آئی ایس پی آرکے اعلان کردہ ڈی جی  آئی ایس آئیکانام واپس لیا جاتا ہے تو کس کی سبکی ہو گی؟ اور اگر وزیر اعظم ا س پر راضی ہو جاتے ہیں تو پھر حضرت عمرؓ اور خالد بن ولید کی مثال دینے کی ضرورت کیا تھی ؟ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...