حضور اکرم ﷺ کی سیاسی بصیرت

Oct 16, 2021

دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے لہٰذا سیاست دین کا ایک لازمی جزو ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں سیاست کا ایک مثالی ماڈل پیش کیا۔ ہم نے چونکہ اس روشن ماڈل پر عمل نہ کر سکے اور سیاست کو مکر و فن جھوٹ اور منافقت اور بد دیانتی کی علامت بنا دیا اس لیے اختلاف رائے سامنے آیا کہ سیاست کو مذہب سے الگ رکھا جائے تاکہ اسلام کے وقار اور ساکھ کو نقصان نہ پہنچے۔ اگر سیاست کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سنہری سیاسی اصولوں کے مطابق چلایا جاتا تو سیاست اور مذہب کی علیحدگی کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے ہر موڑ پر اعلی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا۔جب خانہ کعبہ کی تعمیر کے دوران حجر اسود کو نصب کرنے کا مرحلہ آیا تو مکہ کے قبائل یہ اعزاز حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف جنگ پر آمادہ ہو گئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ سیاسی اور سماجی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا متفقہ حل نکالا جس سے جنگ کے خطرات ٹل گئے اور امن و انصاف سے یہ حساس مسئلہ حل ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مراحل پر جو فیصلے کیے ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ سیاسی بصیرت ثابت ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریبی رفقاء کی تربیت اس مہارت کے ساتھ کی کہ وہ نسل قبیلہ برادری اور دوسرے سب رشتے توڑ کر ایک عقیدہ کے رشتے سے وابستہ ہو گئے اور آخری دم تک اسلامی کاز کے لیے ثابت قدم رہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی تحریک کو کسی قسم کی مہم جوئی کا شکار نہ ہونے دیا۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کے ابتدائی مرحلہ کے دوران مکہ میں مصائب اور مشکلات کا سامنا کیا مگر کسی موقع پر بھی شدت پسندانہ رویے کا مظاہرہ نہ کیا بلکہ صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرکے مکہ کے مشرکین کو حیران کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقاء کے ہمراہ شعب ابی طالب میں تین سال تک نظر بندی بھی کاٹی اور اپنے عظیم مشن کے لیے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت عقبہ کے دوران اہل مدینہ سے کامیاب مذاکرات کیے جن کی وجہ سے مسلمانوں کو نہ صرف اسلامی مرکز حاصل ہو گیا بلکہ ان کا سیاسی مستقبل بھی محفوظ ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ضروری سمجھا اپنے رفقاء کو حبشہ کی جانب ہجرت کر نیکی ہدایت کی۔ ان کا سیاسی بصیرت پر مبنی یہ فیصلہ دینی تحریک کے فروغ کے لیے بڑا اہم ثابت ہوا۔ 
مسلمانوں کو حبشہ میں ایک محفوظ ٹھکانا مل گیا اور حبشہ کے بادشاہ کے ساتھ خوشگوار مراسم بھی پیدا ہوگئے۔ اسلامی سکالرز اور مورخ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے نام خط کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ یہ خط جو اعلیٰ سفارت کاری کا بہترین نمونہ تھا تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچے تو ہر قبیلے کی خواہش تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر میں قیام فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے مثال دانشمندی اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے قیام کا فیصلہ اونٹنی پر چھوڑ دیا کہ وہ جہاں بیٹھے گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کے گھر میں قیام پذیر ہوں گے۔ صلح حدیبیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال سیاسی معاہدہ ہے اس معاہدے کو دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں نے اپنے نصاب میں شامل کیا ہے جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ سفارت کاری اور بے مثال سیاسی بصیرت ثابت ہوتی ہے۔ اس معاہدے کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اور قرب و جوار کے مختلف قبیلوں کو تقسیم کردیا تاکہ وہ متحد ہوکر مدینہ پر حملہ نہ کر سکیں کیونکہ اس وقت تک مسلمانوں کی دفاعی طاقت اس قدر نہیں تھی کہ وہ تمام قبائل کا کر مقابلہ کرسکتے۔ جب مکہ میں قحط پڑا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے 500 اشرفیاں مکہ کے غریبوں کے لیے بھیج کر ان کے دل جیت لئے اور بڑے مقصد کی خاطر ان کے ظلم و ستم اور جبر و تشدد کو نظر انداز کر دیا۔ میثاق مدینہ جو تاریخ انسانی کا پہلا تحریری دستور تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ سیاسی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس میثاق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے تمام قبائل کو اپنی قیادت میں جمع کر لیا جس کے بعد مسلمانوں کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اسلامی ریاست کی بنیادیں مستحکم اور محفوظ بنا سکیں۔ 
میثاق مدینہ کی اساس امن انصاف اور بقائے باہمی کے اصولوں پر رکھی گئی۔ مورخین نے حجتہ الوداع کے خطبہ کو مثالی انسانی چارٹر قرار دیا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ آخری خطبہ جو ایک لاکھ چالیس ہزار مسلمانوں کے اجتماع میں دیا گیا انسانی حقوق کا ابدی اور ازلی نمونہ ہے اور آپ کی سیاسی دانش و بصیرت کا شاہکار ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مثالی سیاسی ماڈل کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی ان میں اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت امانت دیانت صداقت انصاف احتساب مساوات میرٹ تحمل برداشت اور اخوت شامل تھے۔
 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی جب کسی قوم کی بھلائی چاہتا ہے تو ان کا حکمران دانش مند لوگوں کو بنا دیتا ہے اور ان کا مال سخی لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیتا ہے اور جب کسی قوم کو آزمائش میں مبتلا کرنا چاہتا ہے تو ان پر نادانوں کو حکمران بنا دیتا ہے اور ان کے مال بخیل لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیتا ہے۔ امام غزالی کے نزدیک سیاست کا مفہوم یہ ہے کہ سیاست اللہ تعالی کی مخلوق کی دنیا اور آخرت میں نجات دلانے کے لئے اصلاح کے سیدھے راستے پر راہنمائی کرنا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم نے ارشاد فرمایا کے اللہ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں انہیں نظر انداز نہ کرو کچھ حرمتیں مقرر کی ہیں انہیں نہ توڑو۔ کچھ حدود مقرر کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور کچھ باتیں جن کے بارے میں سکوت فرمایا ہے ان کی کھوج میں نہ پڑو‘‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایسا کوئی شخص نہیں کہ اللہ نے اسے کوئی رعایت دے رکھی ہو اور وہ اس حال میں اپنی رعایا سے خیانت کرنے والا ہو تو اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا۔ سیاست عوام کی خدمت کا نام ہے جس میں اقتدار اور دولت کی ہوس کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دو خونخوار بھیڑئے معصوم بھیڑوں کے گلے میں اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا اقتدار اور دولت کی ہوس میں ڈوبے ہوئے انسان تباہی مچاتے ہیں۔افسوس پاکستان کی مذہبی جماعتیں سیاست تو کرتی ہیں مگر وہ حضور اکرم صلی اللہ کے بنیادی اصولوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتی ہیں۔ مذہب کو سیاسی عزائم کے لیے استعمال کرنے سے اسلام کا چہرہ بد نام ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام سیاسی فیصلے مسلمانوں کے اجتماعی مفاد دین کے فروغ اور ریاست مدینہ کے استحکام اور وسعت کے لئے کیے۔ 
پاکستان کے آئین کے مطابق اسلام ریاست کا مذہب ہے اور اسلامی ریاست میں کوئی قانون قران اور سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا مگر انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام کو قرآن اور سنت کے مطابق تشکیل دینے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی اور ہم انگریزوں کے بنائے ہوئے سیاسی نظام پر عمل کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان ہر قسم کے بحرانوں کا شکار ہو چکا ہے۔آئیے ربیع الاول کے بابرکت عشرہ میں عہد کریں کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سیاسی ماڈل کے نفاذ کے لیے توانا آواز اٹھائیں گے۔

مزیدخبریں