قائداعظم کے دست راست، پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان

Oct 16, 2021

عیشتہ الراضیہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
 مزار قائد اعظم کے احاطے میں موجود قائد ملت  لیاقت علی خان کی قبر پر جب دعائے مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ذہن کئی دہائیاں پیچھے اُن دریچوں کو کھول کر اُن رستوں پر چل نکلا کہ جہاں بانیان پاکستان مل کر ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے کے لیے ایک پیج پر موجود تھے۔ تاریخ  میں جب بھی حصول قیام پاکستان سے متعلق پڑھا، قائد اعظم کیساتھ لیاقت علی خان کا نام ہمیشہ ساتھ ساتھ ہی پایا۔ پھر سوچوں کے دریچے مزید وا ہوئے اور میں نے قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خان کو پہلے وزیراعظم پاکستان کے روپ میں دیکھا۔
 لیاقت علی خان کا دورِ حکومت چار سال اور دو ماہ کی مدت پر محیط ہے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 کو وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا اور 16 اگست 1951 تک وہ اسی منصب پر فائز تھے کہ راولپنڈی  میںجلسے سے خطاب کے دوران شہید کر دیئے گئے۔
چار سال کی یہ مدت ایک پْرآشوب دور کی حیثیت رکھتی ہے، جس میں نوزائیدہ مملکتِ پاکستان تقسیمِ ہند کے بعد کے واقعات سے عہدہ برا ہورہی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد کے تیرہ ماہ میں، جب قائداعظم حیات تھے، اْس وقت تک ظاہر ہے کہ لیاقت علی خان کا کردار محض ثانوی نوعیت کا تھا۔ 
لیکن لیاقت علی خان کا سیاسی قد کاٹھ اْس وقت نکلا جب قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کے منصب پر فائز ہوئے۔ ناظم الدین نے گورنر جنرل کے اختیارات کو صرف واجبی طور پر ہی استعمال کیا۔ بیوروکریسی میں کیوںکہ بنگال کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا، اور گورنر جنرل کے اختیارات کا استعمال زیادہ تر بیوروکریسی کے ذریعے ہی ہوتا تھا، اس لیے بھی ناظم الدین زیادہ مئوثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے اور یوں لیاقت علی خان کو زیادہ وسیع دائرہ عمل میسر آگیا۔
لیاقت علی خان کے دور حکومت کا جائزہ لیں تو جو نمایاں ترین حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں، اْن میں سرفہرست تقسیم ہند کے بعد کی بحرانی صورتِ حال تھی۔ تقسیم کے وقت سرحد کے اِس پار اور اُس پار فسادات، لاکھوں افراد کی نقل آبادی اور ہندوستان کے ساتھ اثاثوں کی تقسیم کے معاملات بہت زیادہ اعصابی قوت اور سیاسی سمجھ بوجھ کا تقاضا کرتے تھے۔ اس ضمن میں نہرو سے اْن کی ملاقاتیں اہمیت کی حامل تھیں، جن میں تقسیم کے بعد کے بعض پیچیدہ مسئلوں کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا گیا۔ملک میں انتظامی ڈھانچے کی تعمیر، پاکستان کے بیرونی ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کا قیام اور ملک میں بنیادی اقتصادی اداروں کا قیام اْن کی حکومت کے چند ایک ایسے کام تھے، جن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیاقت علی خان کو ایک اور بڑا مسئلہ کشمیر کی جنگ کی صورت میں درپیش ہوا۔ 
انگریز استعمار جس کو اپنی سیاسی بصیرت پر غیرمعمولی ناز تھا، نہ تو ریاستوں کے بارے میں کوئی قابلِ اطمینان فیصلہ کرسکا اور نہ ہی ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں کے تعین اور دونوں ملکوں میں اثاثوں کی تقسیم کے کام کو خوش اسلوبی اور سلیقے کے ساتھ سرانجام دے سکا۔ تقسیم کے وقت کے فسادات اور ان میں لاکھوں لوگوں کی ہلاکت انگریز حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے، جو نہ تو اِن واقعات کا پیشگی اندازہ کرسکی اور نہ ہی واقعات کے ظہور میں آنے کے بعد ان کی مناسب روک تھام کرسکی۔ لیاقت علی خان کی حکومت کو کشمیر کا بحران استعمار کے ورثے کے طور پر ملا اور اْن کی انتظامیہ کی بیشتر توانائی اس کی نذر ہوگئی ،لیاقت علی خان کے دور کی ایک اور حقیقت ملک کی سیاسی بے سروسامانی بھی تھی۔ مسلم لیگ میں قائداعظم کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل تھا اور اْن کے بعد جو لوگ صف آرا تھے وہ زیادہ تر صوبائی سطح کے لوگ تھے اور اْن میں سے بھی بیشتر گروہوں میں تقسیم تھے۔ اْدھر لیاقت علی خان ماضی میں جس حلقے سے منتخب ہوتے رہے تھے، وہ ہندوستان میں رہ گیا تھا اور پاکستان میں اْن کی سیاسی بنیاد ہمہ گیر نوعیت کی نہیں تھی۔
 قیام پاکستان سے قبل لیاقت علی خان ہندستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے منتخب رکن تھے۔آزادی سے پہلے جب پنڈت جواہر لال نہرو کی قیادت میں عبوری حکومت قائم ہوئی  تو آپ اس میں متحدہ ہندستان کے وزیر خزانہ  مقرر ہوئے ۔ اس دوران  1946 میں  مرکزی بجٹ لیاقت علی خان نے پیش کیا، جبکہ  اس کے ڈیڑھ سال بعد وہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے۔لیاقت علی خان نے اپنی بجٹ تجاویز کو سوشلسٹ اکانومی کے اصولوںپر ترتیب  دیا۔
لیاقت علی خان کے قتل کا اہم واقعہ راولپنڈی سازش کیس ہے، جس کی تفصیلات بڑی حد تک منظرِعام پر آچکی ہیں۔ اس واقعے کا ایک پہلو جو بالعموم زیربحث نہیں آتا وہ یہ ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت کو، جس میں ایوب خان سب سے نمایاں تھے، پہلے سے علم تھا کہ فوج کے چند افسران اس قسم کی مہم جوئی پر مائل ہیں۔ ایوب خان اپنی کتاب ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں لکھ چکے ہیں کہ ان کے پیش رو جنرل گریسی نے فوج کا منصبِ قیادت ان کے سپرد کرتے وقت انہیں بتا دیا تھا کہ فوج میں موجود چند ’ینگ ٹرکس‘ کسی مہم جوئی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔
 لیاقت علی خان کے قتل کے پیچھے امریکہ کا بھی ہاتھ گردانہ جاتا ہے۔ حالانکہ قیام پاکستان کے بعدہندوستان روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھا چکا تھا جبکہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کررہا تھا۔اس حکمت عملی کو لیاقت علی خان کی حمایت بھی حاصل تھی۔اس کے باوجود امریکہ لیاقت علی خان کو کس بنا پر راستے سے ہٹانا چاہتا تھا اس کے پیچھے تجزیہ کار ایک وجہ یہ بتاتے ہیں کہ لیاقت علی خان کو امریکی صدر ہیری ٹرومین نے قتل کروایاکیوں کہ امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا تھا وہ ایران کو راضی کرے کہ وہ اپنے تیل کے ذرائع کا کنٹرول امریکہ کو منتقل کر دے، لیکن لیاقت علی خان نے انکار کر دیا، بلکہ الٹا امریکہ کو پاکستان میں موجود فوجی اڈے خالی کرنے کا حکم دے دیا ۔
2006 میں ’عرب نیوز‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ ہے جسے سید راشد حسین نے تحریر کیا تھا۔ اس رپورٹ کی سرخی ہے:
Declassified papers shed light on US role  in Liaquat's murder
رپورٹ میں کہا گیا ہے: ’حال ہی میں امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ڈی کلاسیفائی ہونے والی ایک رپورٹ میں چند دلچسپ حقائق پر روشنی پڑتی ہے۔ اس دستاویز کے مطابق نئی دہلی میں قائم امریکی سفارت خانے نے 30 اکتوبر 1951 کو ایک تار بھیجی تھی۔‘آگے چل کر رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس تار میں بھوپال سے 24 اکتوبر 1951 کو شائع ہونے والے ایک اردو اخبار ’ندیم‘ کی خبر کا خلاصہ پیش کیا گیا تھا۔ اس اخبار نے سوال اٹھایا تھا کہ ’کیا لیاقت علی خان کا قتل گہری امریکی سازش کا نتیجہ ہے؟‘یہ افشا شدہ دستاویز انٹرنیٹ پر کہیں بھی موجود نہیں ہے، اور نہ ہی امریکی محکمہ خارجہ کی آرکائیوز میں اس کا اتا پتہ ملتا ہے۔ 

مزیدخبریں