بارش کا ننھا قطرہ جب بادل سے ٹپکا تو نیچے گرتے ہوئے اُس نے سمندر کی چوڑائی دیکھی تو شرمندہ ہوتے ہوئے دل ہی دل میں کہا ’’ سمندر کے سامنے میری کیا حیثیت ہے؟اسکے ہوتے ہوئے تو میں نہ ہونے کے برابر ہوں‘‘ ۔ اسی دوران اُس گرتے ہوئے قطرے کو ایک سیپی (صدف) نے اپنے منہ میں لے لیا اور کچھ عرصہ دل و جان سے اُس کی پرورش کی۔ تھوڑے ہی دنوں میں یہ قطرہ ایک قیمتی موتی بن گیا اور یوںبادشاہ سلامت کے تاج کی زینت بنا۔یاد رہے !انسان خالق کائنات کا ایک حسین شاہکار ہے اور دوسری مخلوقات اُسکی خدمت پر مامور ہیں۔انسانی زندگی اتنی قیمتی شے ہے کہ دنیا کی کوئی بھی چیز اس کا مول نہیں دے سکتی۔مگر افسوس موجودہ دور کا انسان ایک شدید قسم کے اخلاقی بحران کا شکار ہے کیونکہ موجودہ دُور میںانسانیت کی تمام قدریں اس حد تک مٹ چکی ہیں کہ ستم ظریفی دیکھیں، حیوانیت بھی اس پر ماتم کناں ہے۔زندگی کا فلسفہ’’یہ بھی میرا،یہ سارا میرا،سب کچھ میرا اور صرف میںمیںمیں۔۔۔‘‘ تک محدود ہو گیا ہے۔ سب انسان اس سوچ کے تحت اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں اگر دیکھا جائے توایک قوم دوسری قوم کو ہڑپ کرنے کے درپے نظر آتی ہے۔اس سارے عمل کی وجہ صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ہر انسان دوسرے انسان پر خُدائی دعویٰ جمانے کی خواہش میں مبتلا ہے۔
انساں ہے گرفتار فسوںکاریٔ انساں
بنتے ہوئے بندوں کو خُدا دیکھ رہا ہوں
مگر افسوس ہماری غفلت کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کی محبت اور آخرت سے دُوری ہماری زندگی میں داخل ہوتی گئی۔ اس دور میں اللہ رب العزت جس کو چند روزہ عزت عطا فرماتے ہیںوہ مستقل دعویدار بن جاتا ہے اور یوں بادشاہی اور حکمرانی کا سلسلہ نسل در نسل چلنا شروع ہو جاتا ہے۔قانون فطر ت ہے کہ جو بویا جائیگا وہی کاٹا جائیگا اگرچہ نیت کسی بھی فرد کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے لیکن ہم انسانوںا ورچیزوں کے ظاہری اعمال و افکار سے اندازہ لگاتے ہیں جو کبھی درست اور کبھی غلط ثابت ہوتا ہے۔جب سے انسانوں نے منافقت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے تب سے اُن کا اصل چہرہ نظر ہی نہیں آتا اور یوںسارے اندازے اور مفروضے فیل ہو جاتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سیاست میںاس قدر منافقانہ رویے اور مفاد پرستی کا عنصر شامل ہو چکاہے کہ اب عوام اپنے محبوب قائدین کی اکثر باتوں پر یقین نہیں کرتے مگر ذہنی غلامی کی وجہ سے ظاہراًتائید ضرور کرتے رہتے ہیں۔ ملک میں ایک بار پھرکافی حلقوں میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ایک عرصے سے میدان سیاست کے شہسوار اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ کسی بھی طریقے سے انتخابی عمل کو شفاف بنایا جائے تاکہ عوام کے منتخب لوگ ہی حکومت سنبھالیں۔مگر افسوس ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور کے مصداق آج تک کسی سیاسی جماعت سمیت کسی فوجی آمر نے بھی کبھی انتخابی اصلاحات پر عملی قدم نہیں اٹھایا ۔اس موضوع کو میڈیا میںگفتگو کا مرکز بنائے رکھا مگر کام صفر رہا۔یہ بات ذہن میں رہے کہ پاکستانی سیاست میں انتخابات کے دنوں میں دو طرح سے دھاندلی کی جاتی ہے ایک وہ جو انتخابات سے پہلے یعنی پری پول رگنگ ہوتی ہے جبکہ دوسری الیکشن ڈے پر ہوتی ہے۔پری پول رگنگ میں مقامی انتظامیہ میں ہم خیال لوگ لائے جاتے ہیں پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی مدد سے مقامی سیاسی قائدین کی وفاداریاں بدلی جاتی ہیں،ڈرایا جاتا ہے،جھوٹے مقدموں میں پھنسایا جاتا ہے ۔سیاسی مخالفین پر اس طرح کی نوازشات کے بعد پسندیدہ امیدواروں کی جیت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔اسکے علاوہ اپنے وفادار گھوڑوں کی جیت یقینی بنانے کیلئے ترقیاتی فنڈ کی مد میں رقوم تقسیم کی جاتی ہیں اوریوں علاقے میں ترقیاتی کاموں کی لوٹ سیل لگ جاتی ہے۔اگرچہ ایسے اقدامات کو روکنے کیلئے اکثر قانون موجود ہیں مگر ہمارا کمزور الیکشن کمیشن ،ملک کے طاقتور مافیا کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔جس کی لاٹھی،اُسکی بھینس کے اُصول کے تحت ہاتھی کے پائوں میںسب کا پائوں نظر آتا ہے۔یوں قانون بھی بے بس اور قانونی ادارے بھی بے بس۔اب ہم دوسری انتخابی دھاندلی کی بات کرتے ہیں جسے عرف عام میں الیکشن کے دن کی دھاندلی کہا جاتا ہے۔تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ الیکشن کے دن جب جعلی ووٹ کاسٹ کیا جاتا ہے اور بیلٹ پیپر پر ٹھپے پہ ٹھپہ لگتا ہے تو یہ عمل نتائج میں تبدیلی کا بڑا سبب بنتا ہے۔تمام سیاسی قائدین اس بات کو یقینی بنانے پر رضامند ہیں کہ الیکشن ڈے پر جعلی ووٹنگ کو روکا جائے۔پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو اس نے بھی اپنے منشور میں اس بات کو شامل کیا کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی بنائی جائیگی جو موجودہ نظام کا ازسرنو جائزہ لینے کے بعد اپنی سفارشات مرتب کریگی اگرچہ پی ٹی آئی حکومت جس طرح اکثر جگہوں پراپنے منشور کی اہم شقوں سے انحراف کرتی پائی گئی ہے اسی طرح انتخابی اصلاحات کا عمل بھی رُکا رہا۔اللہ کرے ،سیاست کے میدان کے تلخ تجربات کی روشنی میں اس بارہماری سیاسی قیادت ملک و قوم کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابی نتائج کو قبول کرے اور باہمی مشاورت سے سیاسی عمل کو آگے بڑھائیں کیونکہ سیاسی عمل کے پر امن طریقے سے چلتے رہنے میں ہی ملک و قوم کی بقا اور سلامتی ہے۔