رابی پیرزادہ ایک متنازعہ شخصیت رہی ہیں جو کبھی نازیبا وائرل ویڈیو اور کبھی خطرناک جانوروں کے ساتھ بنائی گئی ویڈیوز اور تصاویر کی وجہ سے سرخیوں کا حصہ رہی ہیں۔سابق پاپ گلوکارہ جانور پالنے کی شوقین پہلے بھی تھیں اور اب بھی ہیں۔انہوں نے غیر ملکی جانوروں سانپ اور شیر کو گھر میں رکھنے پر پنجاب کے وائلڈ لائف پروٹیکشن اینڈ پارکس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مقدمہ کا بھی سامنا کیا۔
زندگی میں بڑے تنازعات سے گزرنے کے بعد رابی نے شوبز سے دوری اختیار کرلی اور تمام سابقہ دلچسپیوں اور طرز زندگی کو پیچھے چھوڑ کر مذہبی سفر کا آغاز کیا۔حال ہی میں ایک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے رابی پیرازاہ نے ایک دلچسپ راز سے پرد ہ اٹھایا، انٹرویو کے دوران ماضی میں خطرناک جانوروں کے ساتھ وائرل ہونیوالی اپنی تصاویر اور ویڈیوز کے بارے میں بات کرتے ہوئے رابی نے انکشاف کیا کہ وہ کسی بھی قسم کے جنگلی جانور، شیر، سانپ، اڑدھے یا پھر بھیڑیے کو باآسانی کنٹرول کر سکتی ہیں اور یہ ہنر انہیں خدا کی طر ف سے ملا ہوا ایک تحفہ ہے۔انہوں نے بتایا ان کے خلاف بغیر لائسنس کے جنگلی جانوروں کو رکھنے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جوکہ اب ختم ہو چکا ہے۔سانپوں کی ملکہ کہی جانیوالے رابی پیرازادہ نے دعویٰ کیا کہ جب کبھی آپ کے گھر سے کوئی سانپ، شیر یا بھیڑیا نکلے تو آپ مجھے بلانا میں اسے آپکے سامنے پرسکون کر کے دکھاؤں گی تھوڑی دیر میں وہ میرے پاس صوفے پر سکون سے بیٹھا ہوگا۔رابی پیرازادہ ماضی میں گلوکارہ، اداکارہ، ماڈل اور بطورآرٹسٹ شوبز انڈسٹری میں کام کر چکی ہیں۔تاہم مذہب کے خاطر شوبز سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد اب وہ فلاحی ادارہ چلا رہی ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ اگر اللہ نے مجھے اس طاقت سے نوازا ہے تو اسے مثبت انداز میں استعمال کرنا چاہئے۔
رابی پیرزادہ کی باتیںسن کر مجھے اپنے ایک دوست عامر پیرزادہ کی یاد آئی، موصوف طلسماتی کہانیاں پڑھ پڑھ کر خود کو تصور میں وہی کردار سمجھنے لگتے ہیں اور پھر دوستوں میں بیٹھ کر خوب ڈینگیں مارتے ہیں۔وہ خود کوکبھی کبھار عمرو عیار سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے فلاں صاحب کو اپنے زنبیل میں سے ’’طلسمی پائوڈر‘‘ نکال کر سنگھایااور بے ہوش کردیا۔ آج میں نے زنبیل سے بانسری نکالی اورایسی دھن سنائی کہ سب’’سوئے ہوئے محل‘‘ کی طرح سب لمبی تان کرسوگئے۔ وہ آج کل ہمیں بچوں کی کارٹون سیریز جس پر فلم بھی موجود ہے’’دی جنگل بک‘‘ کی باتیں سنارہے ہیں اور خود کویہ کہتے ہیں کہ انکے آبائو اجداد نے جب ہندوستان سے پاکستان کا رخ کیا تو پیٹ پرپتھر باندھا یہ بات تو ماننے والی ہے مگر اگلی بات بھی سنیں حضور وہ کہتے ہیںکہ ان کی دادی ماں نے ان کو پیٹ بھرنے کیلئے ڈھیر سارے پتے کھلائے وہ جب شیرخوار تھے۔ یہ بات تو کسی طور پر ماننے والی نہیںاوراسی لئے سرناصرف دھن لیتے ہیں بلکہ ان کی بات سنکر جھٹک بھی لیتے ہیں۔
خیر دوستو بات رابی پیرزادہ سے، دوست عامر پیرزادہ اور دی جنگل بک پر پہنچی ہے۔دی جنگل بک میںموغلی ایک نوجوان یتیم لڑکا ہے جو گھنے جنگل میںپلا بڑھا ہے اسکے والدین کاتوکسی کوپتہ نہیںہے لیکن وہ بھی خود کوجنگی جانوروں کی طرح سمجھنے لگتا ہے اور انکے ساتھ گھل مل جاتا ہے۔ اس کارٹون سیریز یا فلم میں بھیڑیا، ہاتھی، بھالو،سانپ،چیتا،لومٹری سب ہی ہیں ان کے مختلف نام ہیں۔شیر خان، موگلی، بگھیرا،بھلو، انکے مختلف نام ہیں۔موگلی ان سب کی جان ہے اور انکی باتوں کوسمجھتا بھی ہے اور مشکل وقت میںیہ اسکے ساتھی بن جاتے ہیںاور دشمن کامقابلہ کرتے ہیں۔ دوستو یہ سب افسانوی باتیں ہیںاور ٹی وی بھی اچھی لگتی ہیں۔ کہانیوں میں تو شیش ناگ بھی سو برس بعد انسان کا روپ دھار لیتا ہے لیکن آج کے دور میں ایسی باتیں کرکے موصوف ’’عامر پیرزادہ‘‘ اور رابی پیرزادہ کی طرح صرف متاثر ہی کیاجاسکتا ہے۔اس معاشرے میں اور بھی کچھ’’پیرزادے‘‘ ہیں جو دوستوں میں بیٹھ کرمشرق ومغرب کے قلابے ملاتے ہیںاور بے پر کی اڑاتے ہیں۔حقیت تو یہ ہے صاحب کہ آج کل کے بچے بھی ایسی طلسماتی کہانیاں نہیںسنتے اورخود کو ٹیکنالوجی یعنی موبائل میں اس قدر مگن کرتے ہیں کہ ان شیر خواروںکوتو ماں کی لوری تک بھول جاتی ہے لیکن موبائل کی آواز یاد رہتی ہے اوراس پرہلتی تصویریں جن کاشائد ان کو علم بھی نہ ہو کہ وہ کیا کررہی ہیں اور کیا ہورہا ہے لیکن صرف گرافکس ہی اچھے لگتے ہیں۔خیربات نجانے کہاںسے کہاں نکل گئی،سیر حاصل گفتگو کے بعد ’’پلے‘‘ سے باندھنے والی بات یہ ہے کہ بنی نوع انسان کو اللہ کی ذات نے بہت سی خوبیوںسے نوازا ہے، ان خوبیوں کوپہچان کراور دنیا میں آنے کامقصدجان کر زندگی گزارنی چاہئے۔یاد رہے کہ ’’پیرزادوں‘‘ کی طرح رب کی عطا کی تشہیر سے گریز ہی کیاجائے تومناسب ہے،ورنہ ’’شیر آیا،شیرآیا‘‘ کے مترادف اگر حقیقت میںایسا ہوگیاتوجانور’’رام‘‘ ہونے کی بجائے کہیں ’’نقصان‘‘ ہی نہ پہنچا دے لہٰذا انسان اور جانور میں فرق پہچانیں اور اسی کا پرچارکریں۔
بقول راحت اندوی :
’’دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے
دوستی جب کسی سے کی جائے۔۔۔
Oct 16, 2022