سوات میں طالبانائزیشن کے خلاف گزشتہ روز آٹھ دس مقامات پر مظاہرے ہوئے۔ گویا احتجاج اور مزاحمت کا دائرہ پھیل رہا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ خود پی ٹی آئی نے بھی ایک دو مظاہرے کئے۔ ایسا ہے تو امید کرنی چاہئے کہ ایک آدھ جلوس ٹی ٹی پی بھی نکالے گی اور امن زندہ باد‘ دہشت گردی مردہ باد کے نعرے لگائے گی۔ واللہ! پی ٹی آئی کو داد دینا بنتا ہے۔
ادھر پنجاب اور سندھ میں دانشور بحث کر رہے ہیں کہ پختونخوا میں طالبانائزیشن کیسے اتنی زیادہ بڑھ گئی۔ کیسے یہ لوگ پنڈی تک سے بھتہ وصولی کر رہے ہیں اور کسی میں انکار کا دم نہیں ہے۔ کیسے یہ لوگ ٹارگٹ کلنگ کر رہے ہیں اورکوئی پکڑنے والا ہے نہ روکنے ٹوکنے والا۔ ان حضرات کے سوالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بات میر کیا سادہ ہیں سے بڑھ کر میر بہت ہی سادہ ہیں تک پہنچ گئی ہے۔
اندازہ فرمایئے‘ گھٹا کئی دن سے چھائی ہوئی ہو اور مسلسل برس رہی ہو‘ گویا جمعرات والی جھڑی لگی ہوئی ہو اور ایسے میں چھٹے ساتویں دن کوئی صاحب اپنی خواب گاہ سے برآمد ہوں اور تعجب سے پوچھیں کہ ارے‘ یہ صحن میں پانی کہاں سے آگیا۔ ارے یہ پرنالے کیوں چھما چھم بہہ رہے ہیں۔انہیں کیا کہئے گا‘ بے خبر؟ یا خوابیدہ؟ یا مدھوش۔
اب اندازہ کیجئے‘ پختونخوا میں 9 برس سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور پھر بھی لوگ پوچھ رہے ہیں یہ طالبان اتنے سارے کہاں سے نکل آئے؟
................
نو برس قبل پی ٹی آئی عالم بالا کی نگہ خسروانہ کے نتیجے میں الیکشن جیت کر پختونخوا میں برسراقتدار آئی اور ترقیاتی کاموں کا سلسلہ چل نکلا۔ سب سے پہلا ترقیاتی کام یہ ہوا کہ جیل ٹوٹی اور تین سو ٹی ٹی پی بھاگ نکلے‘ جاتے ہوئے جیل والوںسے ہتھیار بھی لے گئے۔ دوسرا ترقیاتی کام یہ ہوا کہ سانحہ اے پی ایس والا ٹی ٹی پی احسان اللہ احسان بھی جیل توڑ کر بھاگ نکلا۔ پہلی ترقیاتی سرگرمی میں تو تین سو نے جیل توڑی تھی‘ یہاں اکیلے نے توڑی۔ پھر تو چل سو چل اور اب پچھلے چند مہینوں سے ہر طرف ٹی ٹی پی کی جے کار اور پی ٹی آئی کی ہاہاکار ہے‘ لیکن اس بار انہونی ہو گئی۔ عوام نکل آئے اور اتنی زیادہ تعداد میں نکل آئے کہ گنتی کرنا مشکل ہو گیا۔
اب سنا ہے‘ مطلب اڑتی اڑتی سی سنی ہے کہ کوئی آپریشن ہونے والا ہے۔ وفاقی حکومت کرے گی اور ادارے تعاون کریں گے۔
ایسے موقع پر ایک فارمولا یاد آرہا ہے کہ آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں۔ یہ ادھورا سچ ہے۔ پورا یہ ہے کہ صرف آپریشن کوئی حل نہیں‘ ساتھ میں کچھ اور بھی کرنا ہوتا ہے۔ امید ہے آپریشن کار اس طرف بھی توجہ دے رہے ہونگے۔
ادھر بلوچستان مسلسل انگارستان بنا ہوا ہے۔ بلوچستان ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس اور شرعی عدالت کے سابق جج نور مسکانزئی کو مسجد میں اس وقت شہید کردیا گیا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے جبکہ اس روز مستونگ میں بم مار کر تین چار آدمی الگ سے شہید کر دیئے گئے۔ بلوچستان میں ہر روز کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب پرویزمشرف کا شروع کردہ ہے۔ اس کا صدقہ جاریہ مل رہا ہے۔ بیچ میں نوازشریف کے دور میں کچھ امن ہوا‘ خاص طور سے عبدالمالک صاحب کی وزارت اعلیٰ کے دور میں‘ لیکن پھر 2017ءمیں بلوچستان حکومت ختم کر دی گئی اوراب چار سال سے زیادہ ہونے کو آئے‘ صوبے میں کوئی حکومت ہی نہیں ہے‘ البتہ ”باپ“ کے نام سے ایک فرنچائز کھانے کھلانے‘ پینے پلانے کی چل رہی ہے۔
بلوچستان میں اس کھاﺅ پیو سنڈیکیٹ کی باعزت رخصتی اور وہاں الیکشن کے ذریعے منتخب حکومت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ سارا نہ سہی‘ کچھ امن تو ہو سکے۔
................
آج گیارہ قومی اور صوبائی سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہیں اور حکومت نے آج ہی بجلی سہ ماہی ڈکیتی کی مد میں تین روپے چالیس پیسے جبکہ ماہانہ ایڈجسٹمنٹ ڈکیتی کی مد میں 12 پیسے‘ کل تین روپے باون پیسے بجلی مہنگی کر دی ہے۔ گویا ووٹروں کو دو ٹوک وارننگ دی ہے کہ خبردار جو ہمارے امیدواروں کو ووٹ دینے کی جرا¿ت کی۔
مفتا صاحب تو کب کے رخصت ہوئے‘ لیکن ان کی بجلی پالیسی جاری ہے۔ یہ کہ گرمیوں میں جتنی مالیت کا بل آتا تھا‘ سردیوں میں بھی اتنی ہی مالیت کا آئے گا۔ تم نے پنکھے‘ بند کردیئے تو کیا ہوا‘ ہم نے نرخ بڑھا دیئے۔
اگست میں بجلی سستی ہوگی۔ لوگ تبھی سمجھ گئے تھے کہ ستمبر میں بجلی اور مہنگی ہوگی اور وہ ہوئی۔ پھر انہوں نے ستمبر میں بیان دیا کہ اکتوبر میں بجلی سستی ہو جائے گی اور لوگ تبھی سمجھ گئے تھے کہ اکتوبر میں اور مہنگی ہوگی اور وہ ہوئی۔ اب ان کا بیان آیا ہے کہ اگلی گرمیوں میں بجلی نمایاں طورپر سستی ہو جائے گی۔ مطلب یہ ہے کہ اگلے موسم گرما میں بجلی زیادہ نہیں تو دوگنی مہنگی ضرور ہوگی۔
خرم دستگیر کو اپنا تخلص رکھ کر اس طرح کی شاعری کرنا چاہئے۔ مفتاح اسماعیل تخلص خوب رہے گا۔ خرم دستگیر مفتاح اسماعیل‘ خدا ان کی شاعری میں ترقی دے۔
................
چڑیا کے بچے کو اردو میں کیا کہتے ہیں؟ یاد نہیں آرہا‘ لیکن پنجابی میں اسے بوٹ کہتے ہیں۔
پی ٹی آئی والے بتا رہے ہیں کہ آج پی ٹی آئی ضمنی الیکشن میں کلین سویپ کرے گی۔ گیارہ کی گیارہ سیٹیں جیت لے گی اور خان صاحب تمام سات کی سات سیٹوں پر فتح حاصل کریں گے۔ اس کلین سویپ کے بعد وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔ شیخ رشید کے خیال میں کل نہیں تو پرسوں تاریخ دیدی جائے گی۔
لانگ مارچ کا اعلان زیادہ اعتماد کے ساتھ ہو یا کم کے ساتھ۔ سامنے کے زمینی حقائق وہی رہیں گے جوں کے توں۔
پی ٹی آئی ایسا ”بوٹ“ یعنی چڑیا کا بچہ ہے جو اقتدار کے گھونسلے سے گر چکا ہے اور پنجابی محاورا ہے کہ گھونسلے سے گرے ہوئے بوٹ کبھی واپس گھونسلے میں نہیں جاتے۔ اردو محارہ ذرا سا مختلف ہے۔ یہ کہ قبل از وقت گھونسلہ چھوڑ دینے (یا گر جانے) والے چڑیا کے بچے کہیں اڑ نہیں سکتے۔ یعنی عملاً نتیجہ وہی ہے۔
................
پنجاب کے سابق وزیرداخلہ کرنل ہاشم ڈوگر کو خوراک کا محکمہ دیکر وزارت پر بحال کر دیا گیا ہے۔ چند روز پہلے انہیں وزارت سے برطرف (یا استعفیٰ دینے پر مجبور) کر دیا گیا تھا۔
یہ کام پہلے بھی ہو سکتا تھا۔ یعنی انہیں وزارت داخلہ سے سبکدوش کرنا ضروری تھا تو سرکاری اعلان کچھ یوں بھی کیا جا سکتا تھا کہ دو وزیروں کے ایک محکمے میں تبدیلی۔ وزیرداخلہ کرنل ہاشم کو خوراک کا محکمہ دیدیا گیا۔
لیکن خان صاحب نے کرنل ہاشم کی ”عزت افزائی“ ضروری سمجھی۔ سنا ہے‘ کرنل ہاشم بھی اس ”عزت افزائی“ پر مطمئن اور خوش ہیں۔ خدا انہیں خوش ہی رکھے۔