حکیمانہ ....حکیم سید محمد محمود سہارن پوری
hakimsaharanpuri@gmail.com
زرا 3دہائی قبل کا منظر دیکھیں ! زندگی فطرت کے قریب ہونے کی وجہ سے ذہنی تناﺅ سے جڑے مسائل سے دور بلکہ کوسوں دور تھی۔ پیدل چلنا ، صبح سویرے جاگنا، سبزیاں اور پھل سے محبت ، مکئی اورگندم کی روٹیوں نے زندگی اور بیماریوں میں فاصلہ بڑھاہوا تھا۔ جوں جوں سائنس و ٹیکنالوجی نے آسانیوں کے دروازے کھولے توں توں تن آسانی سے منسلک مسائل و مشکلات سامنے آتی گئیں ۔ آج مصنوعی پن نے زندگی کو اپنے حصار میں لیا ہوا ہے جس کا رزلٹ قدم قدم پر مسائل اور بیماریاں ہیں۔
لمحہ موجود میں فصلیں غیر موسم میں کھادوں سے پیدا کی جارہی ہیں۔ خوراک بنانے کے ٹائم بدل گئے۔ سبزیوں اور پھلوں کی جگہ فاسٹ فوڈ نے لے لی۔ گندم کی جگہ میدہ سے مزین روٹی نے انسانی صحت کو ”یرغمال“بناہوا ہے۔ اس ساری صورت حال کا سب سے بڑا نقصان انسانی رویوں میں دیکھا جارہاہے۔ والدین خصوصا مائیں آرام پسند ہوگئیں ۔ دستر خوان پر تندور کی روٹی لازمی حصہ بن گئی۔ ترقی و تیزی کے باوجود ہم گندم گندم ، چینی اور دیگر اجناس کی امپورٹ پر مجبور ہیں۔ بحیثیت معالج ہمارا مشورہ صرف اور صرف یہی ہے کہ زندگی کو آسان اور سہل بنانے کیلئے ہم سب کو خصوصا خواتین کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہے جس روز ہم نے لائف سٹائل بدلے کا عہد کرلیا اسی روز زندگی بدل جائے گی....عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے زیر اہتمام سولہ اکتوبر 1979 سے ہر سال خوراک کا عالمی دن نئے عہد سے منایا جاتا ہے ۔اس بار عالمی یوم خوراک 2023 کا ایک مقصد یہ بھی ہے ۔ عام آدمی کی صاف پانی تک مناسب رسائی زرعی سرگرمیوں، آبپاشی اور مویشیوں کی پرورشش کے لئے ضروری ہے یہ سب خوراک کی پیداوار میں حصہ ڈالتے ہیں۔ اس سال کا عالمی یوم خوراک موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے غذائی تحفظ کو یقینی بنانےکے لئے پانی کے پائیدار انتظامی طریقوں کی ضرورت پر زور دیا جائے گا۔ اللہ پاک نے سر زمین پاکستان کو قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ لیکن پاکستان میں لیڈر شپ کبھی بھی پاکستان کے ساتھ کہیں بھی مخلص نہیں نظر آتی۔ جو ڈیم پاکستان میں بنے ہیں وہ بھی پاکستان آرمی نے مارشل لاءکے دور میںبنائے ہیں۔ مگر ان دو بڑے ڈیموں میں یہ صلاحیت نہیں ہے کو وہ پورے پاکستان کی ضروریات کے مطابق پانی ذخیرہ کر سکیں۔ کالا باغ ڈیم کے بارے میں میں بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ فیزیبلٹی تیار ہو گئی ہے۔ بس جلد ڈیم بنے گا۔ مگر آج تک نہیں بن سکا اس کے پیچھے کیا سیاست تھی یہ کس کا ایجنڈا کہ پاکستان کے عوام خوشحال نہ ہون۔ یہاں کے لوگ نوالے کو ترسیں۔اب جدید میڈیا کے دور میں بہت ساری معلوما ت تک عام آدمی کی رسائی ہو چکی ہے۔ پاکستان میں ہاو¿سنگ سوسائیٹیوں بہت ساری زرعی زمین سوسائٹیاں ہڑپ کر رہی ہیں جس سے کسی بھی وقت پاکستان میں خوراک کا مسئلہ گھمبیر حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔ پوٹھوہار میں لوگوں کے پاس پہلے ہیں زمینیں کم تھیں۔ بڑی مشکل سے وہ اپنا گزارہ کرتے تھے۔ لوگوں کے پاس نہ ہنر ہے نہ تعلیم تو پھر وہ کیا کریں گے۔؟ نہ ہی کہ علاقہ صنعتی ہے کہ مزدوری مل جائے گی۔ ہمارئی تجویز ہے کہ پاکستان میںیہ قانون پاس کیا جائے کہ جہاں بھی کوئی سوسائٹی بنائی جائے وہاں ایک سکول، ایک کھیلوں کا میدان، مسجد اور ایک بڑا تالاب بھی بنایا جائے۔ جس میں بارشی پانی سٹور ہو اور سائینسدانوں کی مدد سے اس پانی کو صاف رکھنے کے لئے قدرتی پودے پانی میں لگا ئے جائیں تا کہ پانی صاف رہے۔
پاکستان دنیا میں پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ انڈس ریور سسٹم پاکستان کے لئے پانی کی فراہمی کا بڑا ذریعہ ہے۔ تا ہم بڑھتی ہوئی آبادی، زراعت اور دیگر گھریلو ضروریات کی وجہ سے پانی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ جس سے پاکستان دن بدن پانی کی کمی کا شکار ہو رہا ہے۔ پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے جغرافیائی طور پر بارش کیلئے سازگار خطہ اور مختلف درجہ حرارت رکھنے والے خطے میں ہے جن میں چار مختلف موسم ہیں اور سال بھر بارش ہوتی ہے۔ورلڈ بنک کے مطابق پاکستان میں جولائی سے ستمبر تک اوسطا 200 ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔مگر ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم نہ ہونے باعث پانی ضائع ہو کر سمندر کی نظر ہو جاتا ہے۔پاکستان کئی بڑے شہروں میں نکاسی آب کا بہت بڑا مسلہ ہے جہاں تھوڑی سے بارش بھی ہوجائے تو لوگوں کے گھروں میں پانی چلا جاتا ہے۔ اور کئی کئی دن تک پانی سوکھتا ہین نہیں جس کے باعث مختلف بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔ پاکستان میں صاف پینے کے پانی، پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیموں کا قیام، پانی کی منصفانہ تقسیم، اور استعمال شدہ پانی کی ری سائکلنگ کے لئے ٹیکنالوجیز کی اشد ضرورت ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ دیگر اداروں کے تعاون سے ایسے منصوبے بنائے جس سے عوام کے لئے آسانیاں پیدا ہوں۔ ملک میں کرپشن کے خلاف وسیع پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ورنہ پاکستان میں پائیدار ترقی، پائیدار امن کی صرف باتیں ہی ہوں گی۔ جو کبھی نہیں آئے گا۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان میں پانی کے شعبے کی جغرافیائی ، اقتصادی، سماجی اور ماحولیاتی کمزوریوں کو بے نقاب کیا ہے۔ ہندو کش قرا قرم ہمالیہ میں واقع گلیشیئرز کے پگھلنے سے 70 فیصد پانی حاصل ہو رہاہے۔ یہ گلیشیئرز عالمی وارمنگ کی وجہ سے نمایاں خطرے میں آ گئے ہیں۔ یہ گلیشیئر 2.3 فیصد کی سالانہ شرح سے تیزی سے پگھل رہے ہیں ۔ پاکستان میں قدرتی وسائل کی موثر مینجمنٹ نہ ہونے کے باعث ہمیں تقریبا 28 کھرب روپے کا سالانہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان قدرتی وسائل، آب و ہوا،موسموں، پانی، گیس، زرخیز زمین،جنگلات، آبپاشی کا سب بڑا نظام، دریا، گلیشیئرز، دھوپ، بارشیں، سب میں مالا مال ہے۔ ان سب قدرتی عنایات کے باوجود ہم اپنے قدرتی وسائل سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی گورننس، میننجمنٹ بہتر کی جائے ،
فطرت سے دوری ، بیماریاںاور عالمی یوم خواراک
Oct 16, 2023