پاکستان کا نظام حکومت کیاہونا چاہئے؟

ارتقاءنامہ....سیّد ارتقاءاحمد زیدی 
 irtiqa.z@gmail.com 

حال ہی میں الیکشن کمیشن نے جنوری 2024ءکے آخر میں الیکشن کروانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جس سے غیر یقینی سیاسی صور ت حال ختم ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ۔ سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں اور عوام میں بے چینی پائی جارہی تھی۔ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ حکومت کے متعدد حلقے موجودہ نگران حکومت کی مدت میں دو یا تین سال کی توسیع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ نگران حکومت نے اچھی اور قابل قدر حکمت عملی اپنا ئی کہ کسی بھی قسم کی بیان بازی سے اجتناب کرتے ہوئے اپنی تمام صلاحیتیں ملک کے مسائل کے حل پر مرکوز کر دیں۔ جس سے بہت مثبت نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔ تجارتی حلقوں اور ماہر اقتصادیات نے نگران حکومت کی کارکردگی کو سراہنا شروع کر دیا ہے۔ متعلقہ وزارتوں کے ضروری اقدامات کی بدولت ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بتدریج بڑھ رہی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ڈالر 280روپے سے نیچے آگیا ہے۔ بجلی کی ترسیل میں ہونے والے ضیاع کو کم اور اس کی چوری کو روکنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ایک عام پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں میں حکومتوں نے یہ کام کیوںنہیں کئے۔ وجہ اس کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ منتخب اور غیر منتخب حکومتوں کی ترجیح ہمیشہ یہ رہی ہے کہ کوئی بھی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے ان کی مقبولیت کم ہو۔ چاہے وہ ملک کی معیشت کے لئے کتنا ہی ضروری کیوں نہ ہو۔ بجلی کی چوری روکنے۔اسمگلنگ کی روک تھام۔ سرکاری ملکیت میں چلنے والے قومی اداروں کی کارکردگی بہتر کرنے اور ان کی نجکاری تیز کرنے، جیسے اہم کام کرنے میں کسی بھی سیاسی جماعت کی دلچسپی اس لئے نہیں ہوتی چونکہ ایسا کرنے سے ان کا ووٹ بینک خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ بدقسمتی سے تقریباً تمام سیاست والوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ اقتدار سے باہر ہیں تو اپنی تمام صلاحتیں برسر اقتدار حکومت کو جلد از جلد گرانے اور اقتدار حاصل کرنے میں صرف کردیتے ہیں اور جب وہ خود اقتدار میں آتے ہیں تو تمام ایسے کام کرتے ہیں جن سے ان کا ووٹ بینک بڑھے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ عرصہ اقتدار میں رہ سکیں۔ چاہے ایسا کرنے سے ملکی معیشت خراب سے خراب تر ہوجائے۔ ملک میں یہ بحث بھی ہوتی رہی ہے کہ موجودہ مغربی پارلیمانی نظام حکومت ناکام ہو چکا ہے۔ اس لئے صدارتی نظام حکومت اپنانا چاہئے۔ صدر پرویز مشرف کے دور میں اس پر سنجیدگی سے غور کیا گیا۔ لیکن تمام سیاست دانوں نے اس کی کھل کر مخالفت کی کیونکہ موجودہ نظام حکومت میں ہی ان کو بدعنوانی کرنے کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں۔
پاکستان میں صدارتی نظام۔،مارشل لاءاور پارلیمانی نظام حکومت آزمایا جا چکا ہے۔ لیکن کوئی بھی نظام کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس کی بے شمار وجوہات ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پاکستان بنانے کا مقصد ایک اسلامی فلاحی مملکت کا قیام تھا لیکن بدقسمتی سے تمام حکومتوں نے قومی مفاد کے مقابلے میں ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔ دین اسلام کے اصولوں سے روگردانی کی۔ دین اسلام کو مذہبی رہنماﺅں نے مذہبی رسومات تک محدود کر دیا۔ ملت اسلامیہ کو متحد کرنے کی بجائے تفرقہ بازی کے ذریعے منافرت پھیلائی۔ کچھ دینی مدارس نے خودکش دہشت گردی کی پشت پناہی کی۔سیاسی حکمرانوں نے ایسے معاشی فیصلے کئے جن سے صرف اشرافیہ کو فائدہ ہوا۔ امیر ، امیر تر اور غریب، غریب تر ہونا چلا گیا۔ ان کی پالیسیوں کے تسلسل نے آج ملک میں غریب کا جینا محال کر دیا ہے۔ لوگ بھوک سے تنگ آکر خودکشیاں کر رہے ہیں۔گلوبل تھنک ٹینک نیٹ ورک Global Think Tank Network کے بانی چیئرمین سابق وفاقی وزیر اور ڈپٹی چیئرمین پلائننگ کمیشن انجینئر ڈاکٹر محمد اکرم شیخ (ہلال امتیاز) نے اپنی کتاب ”دین اسلام مکمل نظام حیات “ میں پاکستان کے جملہ مسائل کا تفصیل سے احاطہ کرنے کے بعد بہترین اور قابل عمل تجاویز پیش کی ہیں اور واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اَب تک پاکستان میں آزمائے گئے تمام نظام حکومت ناکام ہوگئے ہیں اور وقت آگیا ہے کہ اَب مزید تجربات کرنے کی بجائے پاکستان میں فلاحی اسلامی نظام حکومت قائم کیا جائے۔جس کا تصور اس کے بانی نے پیش کیا تھا۔ قائد اعظم پاکستان کا نظام قرآن اور سنت کے مطابق چاہتے تھے لیکن ان کے انتقال کی وجہ سے حکمرانوں کو من مانی کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی اور جاگیرداری نظام بچانے کے لئے اشرافیہ برطانوی پارلیمانی نظام نافذ کرنے کے لئے متحد ہوگئی اور جن برطانوی نظام حکومت اور قوانین سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے پاکستان بنایا گیا تھا وہی قوانین ملک میں رائج کر دیئے گئے۔ اس طرح قیام پاکستان کا مقصد حاصل نہ ہوسکا۔یکم جولائی 1948ءکو قائد اعظم نے سٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ پاکستان کے نظام حکومت۔ آئین اور قوانین کو درست کرنا ہوگا۔ پرانے برطانوی نو آبادیاتی نظام حکومت کو قائم رکھنا بہت بڑا ظلم ہوگا۔ کیونکہ یہ صرف بدعنوان اور بے ایمان اشرافیہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور اسلام کے بنیادی اصولوں سے مطابقت بھی نہیں رکھتا۔
ڈاکٹر اکرم شیخ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان کا نظام۔ آئین اور قوانین مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اُن کی پسند اور ناپسند کو مدنظر رکھ کر بنانا چاہئیں۔ ریاست اور حکومت کے فرق کوسمجھنا چاہئے۔ ریاست سے وفاداری ناگزیر ہے۔ اس لئے سیاسی حکومتوں کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ ریاست کی بنیادی اساس کو کمزور کر نے کے لئے آئین میں کسی قسم کی ترمیم کرنے کی جسارت کریں۔
سربراہ مملکت کو امور مملکت کا ماہرہونا چاہئے۔ اس کو ملکی کلیدی عہدوں پرقابلیت کی بنیاد پر تعیناتی کا اختیار حاصل ہو۔ انہوں نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ اعلیٰ درجہ کی مشاورتی کونسل تشکیل دی جائے۔ جو 25 یا 30 ارکان پر مشتمل ہو۔ ا س میں خواتین کو بھی نمائندگی حاصل ہو۔ اس کونسل کے ارکان کا معیار انتخاب مندرجہ ذیل صلاحیت رکھنے والوں میں سے ہو، وہ:1صادق اور امین ہوں اور ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہوں-2تعلیم یافتہ۔ تجربہ کار۔ محب وطن پاکستانی ہوں اور پاکستان کو جدید فلاحی مملکت بنانے کے لئے پُر عزم ہوں۔3اہل علم و دانش اہل بصیرت اور بین الاقوامی حالات پر گہری نظر رکھتے ہوں۔
-4سچے اور پکے مسلمان ہوں۔ فرقہ واریت پر یقین نہ رکھتے ہوں اور مسلمان قوم کو اسلامی اصولوں کے مطابق متحد اور یکجا رکھنے کے لئے کوشش کرنے کے لئے تیار ہوں۔ڈاکٹر اکرم شیخ کا کہنا ہے کہ سربراہ مملکت کی حیثیت سے صدر پاکستان کا عہدہ محض رسمی نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس عہدہ کی اہمیت کے پیش نظر اسے بہت بااختیار ہونا چاہئے۔جو ریاست کی مستقل حیثیت اور آئین کے بنیادی اسلامی کردار کا مکمل تحفظ کر سکے اور طویل مدتی منصوبوں کو تسلسل فراہم کرے۔اہم ریاستی اداروں کی سرپرستی بھی صدر مملکت کی ذمہ داری ہونی چاہئے۔ تاکہ ان کو سیاسی اکھاڑہ بننے سے بچایا جا سکے۔ اس وقت پاکستان کے اہم ادارے اور اعلیٰ افسران نہ صرف سیاست سے محفوظ نہیں بلکہ اس وجہ سے بے حد ناکارہ ہو چکے ہیں۔ سرکاری افسران اس وقت آئین، قانون اور عوام کا خیال کرنے کی بجائے حکومتی پارٹی اور حکومتی سربراہ کے ذاتی ملازم کا کردار ادا کرکے ذاتی منفعت حاصل کر رہے ہیں۔ اس وقت وزیر اعظم کا چناﺅ قومی اسمبلی کرتی ہے۔ جو قومی اسمبلی کے نمائندوں کو اہم اختیار دیتا ہے۔ جو وہ بالعموم پیسے اور اقتدار کی لالچ میں استعمال کرتے ہیں۔سارا نظام ہی پٹری سے اُترا ہوا ہے۔ کیونکہ سارے انتظامی اختیارات وزیر اعظم کے ہیں۔ تو اس لئے ضروری ہے کہ وہ پوری آبادی کا براہِ راست منتخب نمائندہ ہو۔ پاکستان میں ایک بحث نظام حکومت۔ یعنی صدارتی اور پارلیمنٹری کے بارے میں ہوتی رہی ہے جو غیر ضروری ہے۔ بحث کا موضوع ہونا چاہئے کہ کس قسم کا نظام ہمارے مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ہمیں یہ نظام اپنے ملک کے مفاد کے مطابق ڈھالنا چاہئے۔ ہمیں فرانس۔جرمنی۔امریکہ۔ چین۔جاپان۔ ایران اور ترکی کے نظاموں کو بغور مطالعہ کرنا چاہئے اور ا ن کے اچھے نکات کو اپنے حالات کے مطابق نظام میں سمو کر صحیح معنوں میں ایک ایسا نظام بنانا چاہئے جو پاکستان کو جدید اسلامی فلاحی ریاست بنا سکے اور پاکستان اقوام عالم میں اپنا صحیح مقام حاصل کر سکے۔ڈاکٹر اکرم شیخ کی تجاویز پر مقتدرحلقوں۔ دانشوروں اور سیاست دانوں کو سنجیدگی سے غور کرنے چاہئے تاکہ آئینی اصلاحات کے ذریعے ان پر عمل درآمد ہو سکے۔

ای پیپر دی نیشن