پنجاب حکومت کا پندرہ روزہ ثقافتی میلہ


سابق ڈائریکٹر جنرل محکمہ تعلقات عامہ اور کالم نگار ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’ لاہور پاکستان کا دل ہے۔ پنجاب کا صدر مقام ہے۔ ایک مرتبہ جو یہاں آتا ہے یہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ شہر اسے اس طرح اپنے سحر میں مبتلا کر لیتا ہے کہ دوسرا کوئی شہر پھر پسند نہیں آتا۔ لاہور داتا کی نگری ہے۔ لاہور میں رہنے والے دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں وہ ہمیشہ ’لہور لہور اے‘ کہتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی دوسری جگہ ان کی نظروں میں نہیں جچتی۔ لاہور کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جس نے اس شہر بے مثال کو نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا‘۔ ڈاکٹر صاحب نے غلط نہیں کہا۔
 لہور سینکڑوں سال پہلے بھی ایک بڑا شہر یا مقام تھا۔ صدیوں تک کئی حکمران خاندانوں کی راجدھانی رہا۔ یہی بڑا پن یہاں کے لوگوں میں بھی رچ بس گیا ہے۔ لاہور کی سڑکوں پر رات کے وقت پیدل چلیں تو لگتا ہے کہ آپ تاریخ کا سفر کر رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ کسی نہ کسی کونے پر آپ کو ایسی کوئی عمارت یا یادگار ضرور مل جائے گی جس کا تعلق ماضی سے ہے۔
لاہور کا ماضی ہی خوبصورت نہیں بلکہ حال بھی دلکش ہے اور اللہ کرے ماضی بھی ایسا ہی ہو۔ آبادی میں اضافے سے اگرچہ لاہور کے پھیلاﺅ میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور مسائل بھی بڑھے ہیں لیکن حکومتی سطح پر عوام کو سہولیات کی فراہمی کی کوششیں جاری ہیں۔ پنجاب حکومت کے متحرک اور عوام دوست نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کی قیادت میں لاہور کی ثقافتی شناخت اجاگر کرنے کے کئی اقدامات کئے گئے ہیں۔
 اسی سلسلے میں شدید حبس اور گرمی کے موسم کے اختتام پر پنجاب حکومت کے زیراہتمام پندرہ روزہ ’لہور لہور اے‘ کے عنوان سے ثقافتی میلے کا پروگرام بنایا گیا ہے جس میں محکمہ اطلاعات و ثقافت، ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب، والڈ سٹی لاہور، محکمہ امور نوجواناں، محکمہ اوقاف اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کو مختلف ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔
مزیدار اور چٹخارے دار روایتی کھانے، رنگ و بو میں لپٹی ثقافت، میلے ٹھیلے، رات گئے تک جاری رہنے والی رونق اور گہما گہمی، ماضی کا لاہور ایسا ہی ہوا کرتا تھا، ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کے کونے کونے سے لوگ لاہور کے رونق میلے دیکھنے آتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خدشہ رہتا ہے کہ لوگ لاہور کی اس منفرد اور خوبصورت ثقافت کو فراموش ہی نہ کر دیں تاہم اب نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی ہدایت پر لاہور کی قدیم روایات اور ثقافت کو پھر سے زندہ کرنے کے لیے پندرہ روزہ میلے ’لہور لہور اے‘ کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس سے صرف لاہور کے شہری ہی نہیں بلکہ صوبے اور ملک کے دیگر شہروں سے آئے لوگ بھی خوب لطف اندوز ہوں گے۔
نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کی زیرصدارت ایک اجلاس میں ’لہور لہور اے‘ میلے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں وزیر اطلاعات و ثقافت عامر میر، ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب، ڈی جی والڈ سٹی اتھارٹی کامران لاشاری، سیکرٹری اطلاعات علی نواز ملک اور متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ بریفنگ کے دوران شرکا کو بتایا گیا کہ مختلف ممالک کے سفیروں کو بھی ثقافتی میلے میں شرکت کے لیے مدعو کیا جائے گا۔ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے کہا کہ ان تمام پروگرامز میں شہریوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت یقینی بنائی جائے گی۔ تاریخی مقامات پر بھی تقریبات کا انعقاد ہوگا۔ کھیل ،موسیقی، آرٹ، ادب اور دیگر تقاریب میں عوام کی دلچسپی کے پروگرام پیش کیے جائیں گے۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ ’لہور لہور اے‘ میں میوزک کنسرٹ، تھیٹر، پپٹ شو اور آرٹ کی نمائشیں ہوں گی۔
لاہور کی 18بڑی یونیورسٹیوں کے درمیان تھیٹر کمپی ٹیشن ہوں گے۔ ’لہور لہور اے‘ میلے کے تحت الحمرا میں 7 روزہ بکس فیئر لگایا جائے گا۔ نامور قوال اور گلوکار اپنے فن کا جادو جگائیں گے نائٹ نیزہ بازی، کبڈی اور روایتی کھیل ہوں گے۔ ڈرون لائٹس اور لیزر شو جیلانی پارک میں ہوگا۔ ہسٹری بائی نائٹ اور پنجاب تھرو ایجز شو پیش کئے جائیں گے۔ ڈرون کے ذریعے ہیری ٹیج تھرو لیزر شو پیش کیا جائے گا۔ ’لہور لہور اے‘میلے میں ونٹیج بائیک، سائیکل اور دیگر گاڑیوں کا شو بھی ہوگا۔ جیلانی پارک میں چاروں صوبوں کی ثقافت کی عکاسی کی جائے گی۔ جیلانی پارک میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ذریعے منفرد انداز سے فوڈ سٹالز لگائے جائیں گے۔ لاہور کی منتخب سڑکوں میں لائٹنگ اور بیوٹیفکیشن کی جائے گی۔
ثقافتی، تفریحی اور روحانی تقریبات کا یہ سلسلہ 28 اکتوبر سے شروع ہو کر 12 نومبر تک جاری رہے گا۔ وزیراعلیٰ محسن نقوی کی ہدایت پر نگران وزیر اطلاعات عامر میر اور سیکرٹری انفارمیشن اینڈ کلچر علی نواز ملک نے ’لہور لہور اے‘ پروگرام کے حوالے سے عوام کی دلچسپی کے متعدد پروگراموں کی منظوری دی ہے۔ کتابوں کی نمائش بھی ہوگی اور لٹریری ٹاک بھی۔ زندہ دلانِ لاہور تفریحی سرگرمیوں میں شرکت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اس لیے امید ہے کہ تقریباً دو ہفتے تک لاہور قومی اور بین الاقوامی پروگراموں کا مرکز بنا رہے گا۔ اگر محکمہ اوقاف و مذہبی امور کی بات کی جائے تو 28 اکتوبر سے 12 نومبر تک مختلف مزاروں پر محافل سماع کا اہتمام کیا گیا ہے جو روحانی بالیدگی میں بھرپور کردار ادا کریں گی۔
محکمہ امور نوجواناں کے زیراہتمام کھیلوں کے مقابلوں، منی میراتھن، سائیکلنگ، کبڈی اور دیگر پروگراموں کا انعقاد کرنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ اسی طرح محکمہ سیاحت اور فوڈ اتھارٹی کے تحت تفریحی اور فوڈ کے پروگراموں کی منظوری دی گئی ہے۔ یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوگا بلکہ والڈ سٹی اتھارٹی کے زیراہتمام رومانویت سے بھرپور اندرون شہر یعنی قدیم لاہور کے کئی مقامات پر ایسے ہی پروگرام ترتیب دیے گئے ہیں۔ 
مجھے لگتا ہے کہ 28 اکتوبر سے 12 نومبر تک ہمیں کافی چوکس رہنا ہوگا تاکہ ہم کسی بھی پروگرام سے محروم نہ رہ سکیں۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ آپ دنیا کے کسی شہر میں چلے جائیں، لاہور سے محبت آپ کی رگوں میں بہتی ہے۔ لاہور واپس آئیں تو یہ شہر نہ گلہ کرتا ہے نہ شکایت، بازو کھول کر گلے ملتا ہے اور وہیں سے قصہ شروع ہوتا جہاں سے آپ نے رخصت لی ہو۔ لاہور کی ہوائیں، جامن کے درخت، شاہ عالمی کی بھیڑ، مال روڈ کی ٹھنڈی چھاو¿ں، لبرٹی کی رونق۔ سب ویسی ہی ملتی ہے۔ اس شہر کی وفاداری پہ آنکھیں نمناک ہوتی ہیں اور دل سے بے اختیار دعا نکلتی ہے:
شہر لاہور تیری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی ہے مجھے
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن