فوجی زندگی اور حسِ مزاح

انگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے بعد ایک ڈگری کالج میں بطور لیکچرر پُر سکون زندگی گزار رہا تھا کہ نجانے کیوں فوج میں جانے کا خبط سوار ہو گیا، لہٰذا انتخاب کے مختلف مراحل سے گزر کر فروری 1965ءمیں تربیت کے لیے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول جا پہنچا۔ ہماری عسکری تربیت تو ایک ہفتہ بعد شروع ہوئی لیکن تربیت سے پہلے ہی ہمارے ڈرل انسٹرکٹر حوالدار نور کمال نے ہمیں دوڑا دوڑا کر ادھ مو¿ا کر دیا۔ حکم یہ تھا کہ کوئی کیڈٹ چلتا ہوا یا باہر کھڑا ہوا نظر نہ آئے بلکہ صرف دوڑتا ہوا نظر آئے۔کھانے کے لیے جاتے تو دوڑ کر جاتے کھانا کھا کر بیرک تک واپس آتے تو پھر بھی دوڑ کر آتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے دن ہماری ٹانگیں سوج گئیں۔ پورے بدن میں درد۔ ہم رات کو سونے کی بجائے اپنی ٹانگیں دباتے۔ Iodex قسم کی ادویات سے مالش کرتے لیکن درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
ابھی اکیڈمی میں میرا تیسرا دن تھا ہم پی ایم اے روڈ پر اوپر فلم دیکھنے کے لیے لے جائے جا رہے تھے (نئے کیڈٹس کے لیے فلم دیکھنا بھی تربیت کا ایک حصہ تھا اس لیے وہاں جانا ضروری تھا) میری پلاٹون کے تمام لڑکے لنگڑاتے ہوئے دوڑ کر چلے گئے لیکن میرا ٹانگوں کا درد نا قابل برداشت تھا لہٰذا پیچھے رہ گیا۔ اپنی سابقہ پر سکون زندگی اور کردہ ناکردہ گناہوں کی سوچ میں گرتا لنگڑاتا چلتا اوپر جا رہا تھا۔ پی ایم اے روڈ اکیڈمی کے وسط میں ’ان گیٹ‘ سے’ آ¶ٹ گیٹ‘ تک تقریباً تین میل لمبی ہے لیکن ہماری منزل سینما ہال ہماری بیرک سے تقریباً ایک میل کے فاصلہ پرتھی اور یہ تمام کی تمام چڑھائی تھی لہٰذا دوڑ کر چڑھنا بہت مشکل بلکہ محال تھا۔ 
مجھے اندازہ نہ تھا کہ یوں لنگڑا کر چلنے پر بھی سزا مل سکتی ہے۔ میں اپنی شدیددرد میں مبتلا ٹانگوںپر بڑی مشکل سے اپنے وزن کو اٹھائے جارہا تھا کہ اچانک ایک جھاڑی کے پیچھے سے ایک گرجدار آواز آئی،’صاحب، یہ کیا مرغابی کی طرح مٹک مٹک کر چل رہے ہیں؟‘یہ آواز ڈرل سٹاف (انسٹرکٹر) کی تھی۔ پہلے ہی بہت مشکل سے چل رہا تھا۔ اب یہ سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ کوئی آفت نازل ہونے والی ہے۔ اگلا حکم سننے سے پہلے دوڑنے کی کوشش کی لیکن شدید درد کی وجہ سے ٹانگوں نے ساتھ نہ دیا۔ دوسری آواز آئی،’یہ کیا بچہ جننے والی خاتون کی طرح پا¶ں اٹھا رہے ہو؟ پاکستان فوج کو ایسے افسران کی ضرورت نہیں!‘
دل چاہتا تھا کہ ا ن کے پا¶ں پڑ کر منت کروں کہ مجھے ابھی واپس بھیج دیں۔ میں ایسی افسری سے باز آیا میری بلکہ میرے پورے خاندان کی تو بہ۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس وقت کیسے جان چھڑائی جائے۔ ہوش و حواس تو تقریبا ًختم ہو چکے تھے کہ تیسرا فقرہ نازل ہوا،’ اچھا تو نازک اندام صاحب درد ہو رہا ہے؟ میں آپ کا دردِ زہ ابھی ٹھیک کرتا ہوں۔ یہ پاکستان ملٹری اکیڈی ہے (زور پاکستان پر) فیشن پریڈ نہیں جہاں حسینا¶ں کی طرح مٹک مٹک کر چلیں‘۔ ظالم نے کیا خوبصورت الفاظ اور تشبیہات استعمال کیں اگر ہوش و حو اس میں ہوتا تو ضرور لطف اندوز ہوتا ۔ فیشن شوکو بھی فیشن پریڈ کا نام دینا واقعی بہت اچھوتا خیال تھا۔ حکم ہوا، ’اچھا آپ صاحب نہیں چل سکتے فرنٹ رول (Front Roll) شروع کریں اور سینما ہال تک فرنٹ رول کرتے جائیں‘۔ جو آدمی چل بھی نہ سکتا ہو ا سے فرنٹ رول کا حکم ملے۔
بہر حال مرتا کیا نہ کرنا فرنٹ رول شروع کر دیے۔ لیکن اس پر بھی وہ ظالم مطمئن نہ ہوا۔ پھر آواز گونجی،’یہ فرنٹ رول کر رہے ہو یا مچھلیاں پکڑ رہے ہو۔ تیز اور تیز!‘ اس سے زیادہ زندگی میں میں نے اپنے آپ کو اتنا کبھی بے یارومددگار محسوس نہیں کیاجتنا اس وقت احساس ہوا۔ تقریباً دس گز تک فرنٹ رول کیے ہوں گے کہ تارے نظر آنے لگے۔ کھڑے ہونے کی اجازت مانگی۔ زندگی اور موت کا مسئلہ بنا کر جو دوڑنا شروع کیا سینما ہال تک بغیر رکے دوڑتا گیا۔ معلوم نہیں وہ کون سا جذبہ تھا جو مجھے وہاں تک کھینچ کر لے گیا۔ اس وقت تو میں ان الفاظ اور استعاروں سے لطف اندوز نہ ہو سکا لیکن اب جب سوچتا ہوں تو حوالدار نور کمال کی علمی وادبی دسترس کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ ہمارا ڈرل انسٹرکٹر تھا۔ فوجی مزاح سے میرا یہ پہلا واسطہ تھا جو پچیس سال جاری رہا اور زندگی کے تلخ اور مشکل لمحات میں بھی پھلجھڑیوں کی مانند زندگی کو خوشگوار بنائے رکھا۔ مرغابی کی طرح مٹک مٹک کر چلنا۔ بچہ جننے والی خاتون کی طرح پا¶ں اٹھانا، دردِزہ میں مبتلا خواتین کی طرح چلنا، حسینا¶ں کی طرح مٹک مٹک کر چلنا وغیرہ کیا خوبصورت تشبیہیں ہیں جو اردو ادب میں مجھے کہیں نظر نہیں آئیں۔عسکری زندگی میں سزا اور جسمانی تکالیف تو تربیت کا حصہ ہیں جس کے بعد میں نہ صرف ہم خوگر ہو گئے بلکہ اس سے لطف اندوز ہونے لگے۔ جس دن سزا نہ ملتی بور بور محسوس کرتے۔ لیکن جس چیز سے ہم زیادہ لطف اندوز ہوتے وہ ہمارے ڈرل انسٹرکٹر حوالدار نور کمال کے الفاظ اور تشبیہات کا انتخاب اور موقع کی مناسبت سے ان کا استعمال تھا جو ہمیں سول زندگی میں فوج میں جانے سے پہلے ملا اور نہ بعد میں۔ نور کمال کے حس مزاح سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہم لوگ جان بوجھ کر اسے چھیڑتے تھے۔
ایک دن ہمارے ایک ساتھی کے پیٹ میں درد تھا۔ پریڈ میں تھوڑا ٹیڑھا کھڑا تھا۔ نور کمال صاحب کی نظر پڑی۔ دور سے چنگھاڑا، ’یہ کیا صحرائی مسجد کے کوزے بنے کھڑے ہو۔ سیدھے افسروں کی طرح کھڑے ہو!‘۔ واہ سبحان اللہ کیا خوبصورت تشبیہ تھی! صحرائی مسجد کا کوزہ۔ ہم سب بہت محظوظ ہوئے۔ اس کیڈٹ کا نام بھی صحرائی مسجد کا کوزہ پڑ گیا۔ مجھے یقین ہے کہ اس قسم کے الفاظ اور تشبیہات ادبی دنیا کے بڑے بڑے جغادری بھی استعمال نہیں کر سکتے۔ ایک دن ہم سب کو کھڑا کر کے ایک ایک کیڈٹ کو علیحدہ علیحدہ ڈرل سکھا رہے تھے۔ ہمارے ایک بنگالی ساتھی بڑے دبلے پتلے انسان تھے۔ انھوں نے جونہی آگے قدم بڑھایا ہم سب کی ہنسی نکل گئی۔ نور کمال صاحب گویا ہوئے،’ واہ صاحب واہ، کیا الہڑ مٹیار کی طرح چل رہے ہیں۔ دیکھنا کہیں کمر میں بل نہ پڑ جائے!‘بنگالی کیڈٹ کو تو سمجھ نہ آئی لیکن ہم سب بہت لطف اندوز ہوئے اور کھل کھلاکرہنس پڑے۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن