لفظ اوورسیز پاکستانی اور باقاعدہ اوورسیز پاکستانی ہونا دونوں ہی انتہائی پرکشش ہیں، جیسے ہی یہ لفظ کسی کیلئے کہا جاتا ہے توذہن میں تصویر بنتی ہے کہ وہ بہت امیر ہوگا،ماضی ہو یا حال دونوں کی ضرورتیں الگ الگ ہوسکتی ہیں لیکن کمائی کرنے کیلئے باہر جانے کی ذمہ داری ہر دورمیں لاگو ہوتی ہے، پاکستان میں صبح سویرے نہ اٹھنے نہ باقاعدگی سے کام کرنے والے اکثر ہڈ حرام نکمے باہر کی کمائی یعنی ڈھیروں پیسے کا سن کر ہی بیرون ملک جانے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں،زیادہ تر پاکستانیوں کو وطن سے باہر رہنے والوں کی زندگی بہت ہی شاندار لگتی ہے، جسکی وجہ سے نوجوان نسل میں باہر جانیکا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، تعلیم ہو یا روزگار زیادہ تر نوجوان اس کوشش میں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان سے باہر چلے جائیں،
ماضی کے برعکس اب ڈاکٹر،نرس ، بیوٹیشن کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں لڑکیاں اور خواتین بھی بڑی تعداد میں بیرون ملک جاکر قسمت ا?زمائی کررہی ہیں، نئی نسل کا عمومی رجحان امریکا، یورپ، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ممالک کی طرف ہے، پاکستان کے معاشی حالات کے تناظر میں لاتعداد پاکستانی یورپی ، امریکہ ، کینیڈا سمیت دیگر ممالک کی شہریت حاصل کرنے کیلئے اپنا سب کچھ بیچ کر وہاں سرمایہ کاری کرتے دکھائی دے رہے ہیں،
سوال یہ ہے کہ کیا بیرون ملک زندگی اتنی ہی حسین اورخوشگوار ہے جتنی دور سے دکھائی دیتی ہے؟ کیا بیرون ملک میں پیسے درختوں سے لگے ہوتے ہیں؟ یعنی کیا حقیقت میں وہاں زندگی بہت ہی آسان ہوتی ہے ؟ جواب سادہ سا ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے، پاکستان میں پانی کا گلاس خود اٹھ کر نہ پینے والے کی زندگی وہاں بالکل برعکس ہوتی ہے، ایک روبوٹ مشین کی طرح گروسری کرنے ،کھانا بنانے، برتن دھونے،گھر و ٹوائلٹ کی صفائی،لان کی کٹائی سمیت سارے کام خود کرنا پڑتے ہیں،بیماری کی صورت میں اکثر آپ کے پاس کوئی پیارا نہیں ہوتا جو دوا لاکر دے ، تیمار داری کرے اور آپ کے کام کردے،کئی دہائیوں سے پیرس میں مقیم ہوں ،ایک ڈاکٹر دوست کو یہاں آکر اپنے کیرئیر کے حوالے سے خاصی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے دیکھا،
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اگر ان حالات کا پہلے سے علم ہوتا تو کبھی ساری کشتیاں جلا کر یہاں نہ آتا‘ اس کا کہنا تھا کہ یہاں آکر ہی محاورے دور کے ڈھول سہانے کا اصل مطلب پتہ چلا، ڈاکٹر نے پیرس میں وہ وہ کام کئے جو وہ پاکستان میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا،ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ہر لمحے گھر ، گھر والے اور وہاں کی آسائشیں آنکھوں کے سامنے گھومتی رہیں، یہاں آکر پتہ چلا کہ وہ چیز جو دسترس میں نہ ہو ہمیشہ خوبصورت کیوں دکھائی دیتی ہے؟ ڈاکٹر کو غلط فہمی تھی کہ پیرس پہنچ کر با آسانی رہائش حاصل کرلوں گا لیکن مناسب سا گھر بھی ڈھونڈنے میں چار ماہ لگ گئے، یعنی جو لوگ یہ سوچ کر بیرون ملک آتے ہیں کہ وہاں پہنچتے ہی انکی مرضی اور جیب کے مطابق رہائش مل جائیگی ناممکن ہے،ڈاکٹر نےیہ غلط سوچ اپنا رکھی تھی کہ بیرون ملک میں دوست نہ صرف سنبھالتے بلکہ ہر لحاظ سے مدد بھی کرتے ہیں، اس کا خیال تھا کہ پیرس میں پاکستانی کمیونٹی سے مدد مل جائیگی، لیکن ہوا یہ کہ قدم قدم پر اصل مشکلات اپنی کمیونٹی کی طرف سے ہی آئیں‘ پیرس میں اچھی زندگی گزارنے بارے ڈاکٹر کا سہانا سپنا بے وقوفی پر مبنی نکلا، ڈاکٹر نے جوں توں کرکے ایک ڈپلومہ مکمل کیا اور واپس ہولیا،یہی وجہ ہے کہ بیرون ممالک جانیوالے اکثر ڈاکٹر ڈگری یا سپیشلائزیشن کرکے پاکستان واپس جاکر پریکٹس کرنے کو ترجیح دیتے ہیں‘ آخر میں ضروری بات،اکثر دوستوں سے سنا ہے کہ وہ جب بھی ہمیشہ کیلئے وطن واپسی کا بگل بجاتے ہیں تو انکے گھر والے پریشان ہوکر کہتے ہیں کہ گھر کیسے چلے گا ؟ اوورسیز پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ اوورسیز پاکستانی کی حیثیت حقیقت میں پیسہ کمانے والی مشین سے زیادہ کچھ نہیں ہے ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیملی سے لیکر دوستوں تک ،ہمارے حلقہ احباب میں ایسے افراد بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں جو ہر قدم پر انھیں دھوکہ دینے ، انکی زمین ، کاروبار پر قبضہ کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں،اوپر سے طرہ یہ کہ پاکستانی قانون بھی ان دھوکے بازوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے،حکومت پاکستان کو چاہیئے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو تحفظ دینے کیلئے ٹھوس قانون سازی کی جائے کہ کوئی انھیں بے بنیاد مقدمات میں پھنسانے اور انکی جائیداد وں پر قبضہ کرنے کے بارے میں سوچے بھی نہیں۔
٭....٭....٭