عوام کی بیداری فتح کی نوید 

گذشتہ کالم کا عنوان تھا ”عثمان ڈار آخر گھاٹے کا سودا کیوں کرے“۔ یہ ایک سیالکوٹی سوہنے منڈے کی کہانی ہے جو تبدیلی کے سفر پر روانہ ہوا پھر وہ راہ ہی میں کسی موڑ پر رک کر میر کارواں کے خلاف واہی تباہی ٹھہرئیے!یہاں بکنے کا لفظ نہیں برتنا چاہئے۔ اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس نے واقعی پسپائی اختیار کی یا پھر یہ پسپائی کسی حکمت عملی کا نتیجہ تھی۔ ایک مہربان نے اعتراض اٹھایا ہے کہ میں نے اپنے کالم میں عثمان ڈار کی بہادر ماں کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ ان کے مطابق عثمان ڈار کی کہانی ان کی ماں کے ذکر کے بغیر ادھوری سی رہتی ہے۔ پھر وہ صاحب علم ، مہربان ، گورکی کے ناول ”ماں“کا ذکر لے بیٹھے۔ پوچھنے لگے : آپ نے اسے پڑھا ہے ؟ میرا جواب سن کر بولے۔ آپ ایک عظیم کتاب کی لذت سے محروم رہے ہیں۔ پھر انہوں نے اپنی بات یوں مکمل کی۔ خیر !اب آپکی اسے پڑھنے کی عمر بھی نہیں رہی۔ اسے بندے کو لڑکپن میں پڑھ لینا چاہئے۔ شاعر لہور پوچھنے پر بتانے لگے۔ میں نے یہ ناول کئی بار پڑھا ہے۔
 پہلی مرتبہ 1966ءمیں پڑھا تھا۔ آخری بار کوئی چھ ماہ قبل پڑھا ہے۔ بازار سے ناول منگوایا۔ کتاب کے سرورق پر حسن نثار کا فتویٰ ثبت تھا۔ ”گورکی، کی ”ماں “کے بغیر جوان ہونا جرم سے کم نہیں“۔ عمر کے چھیہترویں برس پہلی مرتبہ یہ ناول پڑھا۔ ٹوٹے ہلتے دانتوں سے گوشت بوٹی کھانے کا تھوڑا بہت مزا تو آتا ہی ہے۔ اک زبان سے دوسری زبان میں ترجمے میں بہت کچھ راہ میں رہ جاتا ہے۔ یہ ناول دو زبانوں سے ہوتا ہوا اردو زبان کے قالب میں آیا ہے۔ لیکن اس کتاب میں پھر بھی اتنا کچھ ہے کہ گورکی، کی نثر اور کہانی نے کالم نگار کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ پھر 448صفحوں کی کتاب کتنے گھنٹوں کی متحمل ہو سکتی تھی۔ گورکی کے ناول کی ”ماں“اپنے بیٹے پاشا کی مامتا میں انقلاب کی راہ پر چل نکلی تھی۔ اس کا ظالم ، اجڈ، وحشی ، نشئی شوہر اسے مارتا پیٹتا رہتا۔ پاشا نے سب سے پہلے اپنی ماں کیلئے باپ کے خلاف بغاوت کا علَم اٹھایا۔ یہ علَم ایک وزنی ہتھوڑے کے روپ میں تھا۔ وہ بولا ! ”بہت ہو لیا۔ اب میں اسے برداشت نہیں کرونگا“۔ اس پر باپ نے منہ پھیر لیا۔ ا±دھر عثمان ڈار کے والد ایک کامیاب، امیر کبیر ، شفیق ، رحمدل ، فیاض صنعتکار تھے۔ وہ سیاست میں محض عزت کمانے کیلئے آئے تھے۔ انہوں نے قائد اعظم سے عقیدت کے باعث جناح ہاﺅس اور کرکٹ میں دلچسپی کی خاطر اپنا اسٹیڈیم بنا ڈالا۔ وہ ایک محبت کرنے والے شوہر تھے۔ عثمان ڈار کی ماں کے ذہن میں تبدیلی کے نظریات نہیں ، صرف ایک خاندانی تغافر تھا۔ اسی خاندانی وقار اور بڑے پن نے اسے عمران خان سے وفاداری کے اعلان پر مجبور کیا۔ خواجہ آصف کو الیکشن کا چیلنج ایک بڑے گھر کی ”چوہدرانی “کی للکار تھی۔ وہ مرزا غالب کی طرح ہی وفاداری بشرط استواری اصل ایماں سمجھتی تھی۔ 
1947ءکے بٹوارے میں 33فیصد سپاہ ، 20فیصد آبادی اور 17فیصد وسائل متحدہ پاکستان کے حصے میں آئے۔ پھر سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں کا توازن اسی تناسب سے قائم ہوا۔ آج شاید کوئی یقین نہ کرے کہ اس زمانے میں ایک ڈالر میں ایک پاکستانی روپیہ آتا تھا۔ آج صورت احوال یوں ہے کہ پاکستان عالمی بینک سے قرض لینے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ غریب غرباءمیں جیسے شادی بیاہ پر لئے گئے قرضوں کی ادائیگی کیلئے ٹوم کانٹے بیچنے کا چلن ہے ، آج ہمارا ملک بھی ایسے ہی اپنے ریکوڈک میں شیئرز ، قرضوں کی ادائیگی کے چکر میں سعودی سرمایہ کاروں کو فروخت کرنے پر غور کر رہا ہے۔ زراعت ، رئیل اسٹیٹ اور ریٹیل سیکٹر پر ٹیکس لگانے میں بڑے مشکلات ہیں۔ یہ وجوہات خالصتاً سیاسی ہیں۔ جاگیردار ، ٹاﺅن ڈویلپرز اور تاجر مافیا اتنا طاقتور ہے کہ وہ اپنے اوپر کوئی ٹیکس لگنے ہی نہیں دیتا۔ 1963ءمیں صدر ایوب کے دور میں جب 22خاندانوں میں دولت کا ارتکاز شروع ہوا تو وافر جائیداد والے لوگوں پر ایک ویلتھ ٹیکس لگایا گیا۔ 2002ءمیں صدر مشرف کے زمانہ میں اسے بھی ختم کر دیا گیا۔ادھر وی ایٹ سواراور موٹر سائیکل سوار پٹرول پر ایک ہی شرح سے ٹیکس ادا کرتا ہے۔ کہیں وی ایٹ والا بالکل ٹیکس ادا نہیں کرتا۔پانچ مرلے کا پلاٹ پہلے برس بیچنے پر 10%ٹیکس ، دوسرے برس بیچنے پر ساڑھے سات فیصد اور تیسرے برس پانچ فیصد۔ لیکن جو ٹا?ن ڈویلپر ایک کروڑ روپے فی ایکڑ کے حساب سے 100ایکڑ خرید کر، کالونی بنا کر 25لاکھ روپوں میں پانچ مرلے کا رہائشی پلاٹ اور دو سے چار کروڑ روپوں میں 4مرلہ کاکمرشل پلاٹ بیچتا ہے اس پر کوئی ٹیکس نہیں۔ تعلیم حاصل کرنا عام آدمی کیلئے ممکن نہیں رہا۔ کے پی کے میں گیارہ یونیورسٹیاں ہیں۔ ان میں پچھلے تین برسوں سے کسی ایک بندہ بشر نے پی ایچ ڈی میں داخلہ نہیں لیا۔ ہمارے دیس میں جہالت اتنی منہ زور ہو گئی ہے کہ وہ زبردستی عزت کروا رہی ہے۔ یونیورسٹی اور مدرسہ میں فرق مٹ گیا ہے۔ مشعال خاں پر کیا گیا ظلم یاد آرہا ہے۔ 
زمین کے چار استعمال ہیں۔ کھیت ، پارک ، جنگل ، عمارت۔ پلاٹ ایک وقتی شے ہے۔ یورپ کے اکثر ممالک میں پلاٹ کی رجسٹری نہیں ہوتی۔ اس کا صرف اقرار نامہ ہوتا ہے۔ مقررہ وقت میں تعمیراتی کام کی تکمیل کے بعد رجسٹری تصدیق کی جاتی ہے، جب پلاٹ ، پلاٹ کی شکل میں نہیں رہتا۔ اگر مقررہ مدت میں تعمیر نہ ہو سکے تو فی سال پلاٹ کی مارکیٹ قیمت کا ایک تہائی یا چوتھائی جرمانہ ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان کو’ پلاٹستان‘ بنا دیا گیا ہے۔ پلاٹوں کی فائلوں پر سٹہ بازی کے باعث یہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گئے ہیں۔ تین مرلے کا رہائشی پلاٹ انسانی زندگی کیلئے دانہ گندم کی طرح ہی ضروری ہے۔ کیا کوئی سرکار گندم کی اوپن تجارت کی اجازت دے سکتی ہے کہ تاجر جس بھاﺅ چاہیں گندم فروخت کرتے پھریں۔ اب ایک عام آدمی کیلئے تین مرلے کا رہائشی پلاٹ اور قبر کیلئے پچاس مربع فٹ جگہ خواب و خیال بن گئی ہے۔ اچھی بات صرف یہ ہے کہ ہمارے عوام میں بیداری بہت ہو گئی ہے۔ 
پیوتر زالوف روس کے انقلاب کا وہ مجاہد جس نے گورکی کے من کو موہ لیا تھا۔ اس کا کہنا ہے ”میرے خیال میں غلام جس نے اپنی افسوسناک زندگی پر کانپنا چھوڑ دیا اور جس نے اپنی آزادی کیلئے لڑنے کا فیصلہ کرلیاوہ آزاد انسان بن گیا ہے۔ چاہے ابھی اسکے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لٹک رہی ہوں“۔ یہ بیداری ہی فتح کی نوید ہے۔ ہم برملا کہہ سکتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں۔

ای پیپر دی نیشن