دخترگوجرانوالا کی ایک اچھی کوشش

موسم سرما کی آمد آمد ہے ۔ گرج چمک کے ساتھ ہونے والی موسلا دھار بارش اور©ژالہ باری کی وجہ سے پورے ملک کی طرح گوجرانوالا میں بھی موسم خوشگوار ہوچکا ہے ۔فضا نکھری نکھری اور ہوائیں مہکی مہکی محسوس ہورہی ہیں ۔صبح سویرے گھروں کی منڈےروں پر پرندوں کی چہچاہٹ ایک عجیب رومانیت کا احساس دلا رہی ہے ایسا لگتا ہے جیسے اس بارش کے بعد چرند،پرند اور انسان سب ہی خوش ہیں۔کہتے ہیں جب دل کا موسم اچھا ہو تو انسان کو سب اچھا ہی لگنے لگتا ہے ۔ہمارے ساتھ بھی کچھ اےسا ہی ہے ۔جہاں کوئی پھول کھلا دیکھتے ہیں ،مسکرا دیتے ہیں۔کسی اپنے پرائے سے سامنا ہو تو دعا دیتے ہیں کہ ہم اہل قلم کا کام ہی لوگوں کی اُمید بننا اور محبتیں بانٹنا ہے ۔محترمہ عائشہ بٹ صاحبہ دو تےن ماہ پہلے چےف سٹی ٹریفک پولیس تعینات ہوئیں تو سوشل میڈیا پر دختر گوجرانوالا کے حوالے سے بےشمار مبارکبادی پےغامات نظروں کے سامنے گردش کرتے رہے۔ محرم ،ربےع الاول کے دنوں میں بھی آپ کو بہت متحرک دیکھا گیا۔ہےلمنٹ پابندی کے دوران بھی آپ سڑکوں پر کھڑے ہوکے نہ صرف شہرےوں کو ہےلمنٹ پہننے کے حوالے سے ترغےب دیتی رہیں بلکہ کئی خوش نصےبوں کو مفت ہےلمنٹ بھی فراہم کرنے کا سبب بنیں۔دو ہفتے پہلے سماجی رابطے پر دیکھا کہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے محترمہ عائشہ بٹ صاحبہ کو پنجاب بھر میںبہترےن کارکردگی کی وجہ سے انعام دیا۔ہم سرک کنارے ایک چھپر ہوٹل پہ بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ سینیر کالم نگار اور بہت محبتی انسان عاصم شہزاد گجر بولے راجہ صاحب!سی ٹی او صاحبہ شہر میں بہت متحرک ہیں لیکن آپ نے ابھی تک کوئی کالم نہیں لکھا۔اس سے پہلے کہ میں عاصم کو کوئی جواب دیتا ۔ثقلین شاہ صاحب پی آر او ٹو سی ٹی اوکا فون آگیا،راجہ صاحب! ٹریفک پولیس کے زےر اہتمام ’حادثات سے بچاو اور منشیات کی لعنت سے چھٹکارہ پانے کے لےے کالجز کے طلبا و طالبات کے درمیان تقرےری مقابلہ کروارہے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ آپ اس تقرےب میں بحثےت جج شرکت کریں۔ سینئر کالم نگار،ٹی وی اےنکر،کئی کتب کے مصنف ادرےس ناز کے ہمراہ وقت مقررہ پر ہےون کےسل ہال پہنچاتو ثقلےن شاہ صاحب نے پر تپاک استقبال کیا ۔کچھ ہی دیر بعد جان کاشمیری بھی آپہنچے۔ محترمہ عائشہ بٹ صاحبہ ہال میں پہنچیں اورسب سے پہلے آپ خاص بچوں اور ٹرانسجےنڈر ز کی نشستوں کی طرف گئیں ۔ ہر ایک سے بڑے خلوص اور شفقت سے گفتگو کرتی نظر آئیں۔ نقےب محفل نے محترمہ عائشہ بٹ صاحبہ کو ابتدائی کلمات کے لےے سٹےج پر بلایا تو سی ٹی او صاحبہ نے بتایا کہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی خصوصی ہداےت اور راہنمائی میں آج کی ےہ تقرےب سجائی گئی ہے ۔ہمارا مقصد بہت واضع ہے کہ ایک طرف ہم نے سکول و کالج کے طلبا و طالبات کوحادثات سے بچنے کی ترغےب دینی ہے،نئی نسل کونشہ کی لعنت سے بچانا ہے۔ تو ساتھ ہی ےہ بات سب کے ذہن نشےن کروانی ہے کہ اب سے کوئی ٹرانس جےنڈرز کو تنگ کرنے کا نہ سوچے۔انہیں بھی اپنی صلاحتےوں کی مطابق زندگی گزارنے کا پورا پورا موقع دیا جائے۔تلاوت قرآن اور نعت پاک سے تقرےب شروع ہوئی تو سب سے پہلے خاص بچوں نے پلے کارڈز کے زرےعے ٹرےفک اشاروں کی وضاحت کی۔ان کے معصوم چہرے اور پر جوش آنکھیں بتا رہی تھیں کہ ےہ خاص بچے آج بہت خوش ہیں۔سی ٹی او صاحبہ ہر بچے کو شاباش اور تحفے بھی دئےے جارہی تھیں۔پھر تقرےری مقابلہ شروع ہوا اور طلبا و طالبات نے بہت دبنگ اندازمیں روڈ سےفٹی اور منشیات کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔وےسے تو ہال میں طلبا زیادہ تعداد میں نظر آرہے تھے لیکن جب تقرےر کر نے والوںکو آگے آنے کے لےے کہا گیا تو حےران کن طو ر پر طالبات کی تعداد زیادہ تھی۔بچوں میں جوش واقعی بہت زیادہ تھا۔ اول، دوم اور سوم کے لےے انعامات کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بچوں کے جوش و جذبے کو دیکھتے ہوئے چوتھی، پانچویں،چھٹی پوزےشن والے بچوں اور ٹرانجس جےنڈر کمیونٹی سے مس انگلش جنہوں نے پنجاب ےونورسٹی سے اےم اے انگلش کیا ہوا ہے کو بھی انعامات دئےے گئے۔تقرےب ختم ہونے کے بعد چائے پہ گفتگو شروع ہوئی تو محترمہ عائشہ بٹ صاحبہ بولیں۔میری خواہش ہے کہ میں اپنے شہر کے بچوں کے لےے جو ممکن ہو وہ کروں۔میں نے کہا بے شک ےہ ایک بہت اچھی کوشش ہے لیکن اگر آپ آئی جی صاحب کے کہنے پر’فرےنڈز آف پولیس‘کا حصول ممکن بنانا چاہتی ہیں تو پھر تقرےری مقابلوں کے ساتھ ساتھ شہر کے ادیبوں،شاعروں،اساتذہ اور سماج سےوکوں کے ساتھ مکالمی کو عام کرنے کی کوشش کریں۔بچوں کے لےے والی بال ،کبڈی،رسہ کشی ،فٹ بال جےسے کھےلوں کے مقابلے بھی منعقد کروانے کی کوشش کےجےے گا ۔موسم اچھا ہورہا ہے ۔بچوں کے لےے اےسے میلے بھی سجائے جاسکتے ہیں جہا ں ساگ ،مکھن ، باجرے کی روٹی،لسی اور دوسرے رواےتی پکوانوں کا اہتمام ہو۔ڈھول ہو بھنگڑا ہو،لڈی ہو،شاعری ہو،ڈرامہ ہو،قصہ گوئی ہو۔ صاحبو!کسی بھی سطح پر تربیت کے پانچ زرائع گھر، مسجد، اسکول، کھیل کا میدان اور سفر ہوا کرتے ہیں۔ والدین سمجھتے ہیں کہ ہم نے بچوں کو اسکول بھیج دیا تو ہم انکی تعلیم اور تربیت سے آزاد ہو گئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین،اساتذہ بچوں کو ہار جیت اور کامیابی ناکامی کا فرق سمجھائیں، موجودہ نظام تعلےم بچوں کو بند گلی میں دھکےل رہا ہے ۔اےم اے،اےم اےس سی پاس کرنے والوں کو بھی جب نوکری نہیں ملتی تو وہ ماےوس ہو جاتے ہیں،چوریاں کرتے ہیں اور پھر منشیات کے عادی ہوکے اپنی زندگی تباہ کرلےتے ہیں۔ہم سب جانتے ہیں کہ اے پلس نمبر لےنے والے ہمارے بچوں کو گفتگو کے آداب سے آگائی نہیں ہے۔ ’اے پلس‘ نمبر لےنے والے ہمارے بچوں کو اگر کہیں بولنے کے لےے کہا جائے تو وہ پرےشان ہو جاتے ہیں ۔اکثر بچے صرف تےن منٹ کی تقرےر بھی زبانی نہیں کرسکتے۔میرا خیال ہے کہ اس میں طلبا و طالبات سے زیادہ قصور انکے والدین، معاشرے اور اساتذہ کا ہے جنہوں نے بچوں کو رٹے لگانے اور نمبروں کی دوڑ میں الجھا کے رکھ دیا ہوا ہے ۔دختر گوجرانوالا سے شہرےوں کو بہت سی اچھی اُمیدیں ہیں ۔سی ٹی او صاحبہ ایک کنٹےن بھی آباد کرچکی ہیں جہاں سے کوئی بھی کتاب ،کھانا لے جاسکتا ہے ۔اب ےہ وقت بتائے گا کہ آنے والے دنوں میں آپ کیا کیا کرپاتی ہیں۔ انسکپٹر جمشےد اورتبسم صاحبہ نے بہت خوبصورت انداز میں تقرےب کی نظامت کا فرض ادا کیا۔

ای پیپر دی نیشن