بنام وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف !! 

Oct 16, 2024

پروفیسر سید محمد ابرارشاہ بخاری

 پروفیسر سید محمد ابرار شاہ بخاری 
Peerji63@gmail.com        
                     

انداز بیان گرچہ بہت شوخ نہیں ہے                             
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
میں گورنمنٹ گریجویٹ کالج آف کامرس راولپنڈی سے جو ہائر ایجوکیشن ((HED پنجاب کے زیر انتظام ہے، تقریباََ چالیس سال درس و تدریس سے وابستہ     رہ کر 31 جنوری 2024 میں ملازمت سے ریٹائر ہوا ہوں۔ میرا تعلق ایک نجیب الطرفین سادات گھرانے سے ہے۔ 1947سے پہلے ہمارا خاندان ہندوستان میں آباد تھا۔ خاندان کے اکثر افراد تعلیم یا فتہ ہونے کی وجہ سے اچھی سرکاری ملازمتوں پر فائز تھے۔ سادات ہونے اور خانقاہی نظام سے وابستگی کے سبب ہمارے بزرگوں کے ہزاروں مرید تھے لیکن گدی نشینی کے باوجود اپنے مریدوں سے نذرانے یا ہدیے وصول کرنا کبھی ہماری روایت نہیں رہی اور الحمدللہ یہ روایت اب بھی قائم ہے، اس کے برعکس ہمارے بزرگوں نے اپنے مریدوں کو دعا کے علاوہ، دو ا اور غذا فراہم کرنے کی حتی الوسع کوشش کی۔ انہی بزرگوں کی دعا اور فیض ہے کہ میں بھی ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے مریضوں کو مفت مشورہ اور دوا دے کر مخلوق خدا کی خدمت کا فریضہ انجام دینے کی کوشش کررہا ہوں اور یہ خدمت اپنی والدہ مرحومہ کے نام سے منسوب ایک ٹرسٹ کے تحت کررہا ہوں۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ میری اس خدمت کو شرف قبولیت بخشے اور روز آخرت اسے میرے لئے ذریعہ نجات اور وسیلہ بخشش بنائے۔ قیام پاکستان کے بعد کروڑوں مسلمانوں کی طرح ہمارے دلوں میں یہ جذبہ تھا کہ یہ ارض مقدس ایک نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی ہے چنانچہ اللہ کے عطا کردہ اس علیحدہ ، خودمختار اور آزادخطہ زمین میں جانے اور وہاں آباد ہونے کے لئے میرے بزرگوں نے اپنی زمینیں ، جائدادیں ، مکانات اور ملازمتیں چھوڑ کر بے سروسامانی کے عالم میں سنت نبوی کے مطابق اس مملکت خدادادکی طرف ہجرت کی۔ اس ہجرت کے دوران جو تکلیفیں اور آزمائشیں اٹھانا پڑیں وہ ایک الگ داستان ہے۔ مختصر یہ کہ اللہ کی بے پایاں عنایت اور خصوصی رحمت سے ہمارے خاندان کے تمام افراد اور خواتین باعزت طور پر اور بحفاظت پاکستان پہنچ گئے۔ پاکستان آنے کے بعد میرے نانا محترم سید نذیر احمد بخاری صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی سید نصیر احمد بخاری نے ملتان میں قیا م کیا۔ سید نصیر احمد بخاری کی اولاد زیادہ تر تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے درس و تدریس سے منسلک رہی۔ پاکستان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نامور افراد ، جن میں مولانا مفتی محمود ، ان کے بیٹے مولانا فضل الرحمن صداکار اور اداکار محمد علی وغیرہ نے ان کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ تعلیم کے علاوہ میرے خاندان کے کچھ افراد فوج کے مختلف شعبوں سے وابستہ رہے۔ میرے سب سے بڑے بھائی نے CTI اسلام آباد اور دوسرے بھائی نے ملٹری اکاﺅنٹنٹ جنرل (MAG)، کنٹرولر آف ملٹری اکاﺅنٹس (CMA) اور GHQ میں خدمات انجام دیں۔ تعلیم اور فوج سے وابستہ میرے خاندان کے افراد نے ہمیشہ محنت، دیانت داری، ایمان داری، احساس ذمہ داری ، فرض شناسی اور جذبہ حب الوطنی سے نیک نامی کمائی اور بے داغ ، شفاف اور اچھی شہرت کے ساتھ ملازمت کی۔ اللہ نے اپنے خاص فضل سے ہمیں جھوٹ، دغابازی،فریب، دھوکے، عیاری، مکاری، خوشامد، چاپلوسی اور ناجائز طریقوں سے مراعات حاصل کرنے کی لعنتوں سے محفوظ رکھا۔ تقسیم 1947 کے بعد بھی بے شمار لوگوں نے جھوٹ اور فریب کی بنیاد پر لاکھوں کروڑوں کی جائدادیں ، اراضی اور مکانات الاٹ کرائے لیکن الحمد للہ میرے والد محترم پیرجی سید محمد سعیدنے CIA انسپیکٹوریٹ آف آرنامنٹس سے ریٹائرمنٹ کے بعد بورڈ کے سامنے ضمیر کی آواز پر سچ بولا اور ان کی پنشن 128/- روپے ماہوار مقرر ہوئی جبکہ کموٹیشن اور دیگرواجبات کی مد میں چھ سات ہزار روپے ملے۔اس قلیل پنشن میں والد نے تمام بچوں کو پڑھایا اور کبھی تنگدستی یا محرومی کا احساس نہ ہوا وہ اپنے سچ پر مطمئن تھے اور رزق حلال کمانے اور بچوں کو کھلانے کے معاملے میں با ثروت رہے۔ چونکہ والد صاحب کی پنشن قلیل تھی اس لئے ذریعہ آمدنی بڑھانے کے لئے انھوں نے مری بروری میں ملازمت کرلی لیکن غیر شرعی اور حرام کاروبار میں ملازمت سے دل مطمئن نہ ہوا اور مفتی محمد شفیع کی اجازت دینے کے باوجود یہ ملازمت چھوڑ دی اور پھر TIP، T&T کے مختلف شعبوں میں تقریباََ پندرہ سترہ سال تک کنٹریکٹ کی بنیاد پر ملازمت کی۔ بڑے بیٹے کی CTI میں بھرتی کے بعد پنشن پر گزارا کرتے رہے۔ ایک بات پر ان کا دل بے حد مطمئن تھا کی انھوں نے ساری زندگی لقمہ حلال کمایا اور بچوں کو کھلایا۔ اسی رزق حلال کی برکت تھی کہ دسمبر 1989 میں ان کے انتقال پر، جنازہ پڑھانے کے بعد مولانا مسعود احمد ہزاروی صاحب نے فرمایاکہ میں نے اتنا مطمئن ، پاکیزہ اور نورانی چہرہ نہیں دیکھا۔خاندانی روایات اور اپنے شوق کے پیش نظر ، مختلف پرائیویٹ اداروں میں ملازمت کے بعد میں بھی درس و تدریس سے وابستہ ہوگیا اور 11.10.1986 سے 31.01.2024 تک تدریسی خدمات سرانجام دینے کے بعد مدت ملازمت پوری ہونے سے 13 ماہ قبل ریٹائرمنٹ لے لی۔ لیکن اپنی کلاسز کو جنور ی ???? کے بعدفوری منقطع نہ کیا بلکہ تمام کلاسز کا نصاب اور سیشن پورا کیا۔ میں یہ بات فخر سے نہیں بلکہ بڑی عاجزی اور انکساری سے عرض کررہاہوں کہ میں نے اس طویل مدت ملازمت کے دوران بساط بھر محنت ، دیانت، ایمانداری، فرض شناسی ، احساس ذمہ داری ، جذبہ حب الوطنی اور جذبہ کسب حلال کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی کی کوشش کی۔ تدریس کے علاوہ میرے ذمہ دفتری امور بھی تھے جنھیں میں نے پوری تندہی سے ادا کیا۔ میری تعیناتی 1989 سے 1992 تک (تقریباََ چار سال) گورنمنٹ کالج آف کامرس مری میں رہی۔ سخت سردی میں جب کالج کے پرنسپل بھی راولپنڈی شفٹ ہو جاتے تھے تو میں اس موسم میں بھی باقاعدگی سے کالج جاتا رہا اور اپنے پرنسپل صاحب کی ہدایت کے مطابق GVI (گورنمنٹ ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ مری) کے معاملات بھی دیکھتا رہا      ان امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ میں نے مری اور راولپنڈی میں بہترین تعلیمی نتائج بھی دیئے۔ 1990 سے 2000 تک پنجاب کے تمام کالج اساتذہ کے نتائج اکھٹے کئے گئے الحمدللہ میرے بہترین نتائج کی وجہ سے مجھے نقد انعام ، شیلڈ اور بہترین استاد کا سرٹیفکیٹ عطا کیا گیا۔ یہ بات نہ صرف میرے بلکہ میرے خاندان کے لئے باعث اعزاز ہے کیونکہ اس سے بقول علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ''گھر میرے اجداد کا سرمایہ عزت ہو''
قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لینے کی وجہ یہ تھی کہ آبائی گھر کی وراثت سے سوا دو مرلے کے گھر کی تعمیر کے لئے قرض لیا ہوا تھا ، اس کے علاوہ بیٹی کی شادی بھی پیش نظر تھی اور عمرے کی ادائیگی کا بھی ارادہ تھا۔ خیال یہ تھا کی پنشن اور دیگر واجبات ( کمیوٹیشن، لیو انکیشمنٹ، جی پی فنڈ وغیرہ) سے ان فرائض کی ادائیگی ہو جائے گی لیکن ''اے بسا آرزو کہ خاک شدہ'' ایک سرکاری ملازم اپنی عمر عزیز کا ایک طویل عرصہ سرکاری خدمات کی انجام دہی میں گزاردیتا ہے، یوں تو ہر سرکاری محکمے اور ادارے کے محنتی، دیانت دار، فرض شناس، بے داغ کردار کے حامل اور اچھی و نیک شہرت کے ملازمین نہ صرف اپنے ادارے اور محکمے بلکہ ملک وقوم کا پیش قیمت اثاثہ اور سرمایہ ہوتے ہیں کہ ان سب کا ملکی ترقی اور استحکام میں اہم کردار ہوتا ہے لیکن خصوصاً درس و تدریس اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ سرکاری ملازمین ہزاروں طلبائ وطالبات کی تعلیمی، روحانی، اخلاقی، تہذیبی اوفکری تربیت کرنے اور ملک کیلئے بہترین افراد دینے کا فریضہ انجام دے کر اپنے تعلیم، تجربے، دانش و حکمت سے ملک کی رگوں کو خون جگر دیتے ہیں اس لئے اقبال نے کہا تھا،
                        شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
                        جس کی صنعت ہے روح انسانی
 استاد معمار ہوتا ہے جو معاشرے کے افراد کی بہترین تعلیم وتربیت کرتا ہے، کم و بیش پینتیس چالیس سال یا اس اس بھی زیادہ عرصے تک پیغمبرانہ خدمات انجام دینے کے بعد جب ریٹائرمنٹ کی منزل آتی ہے تو ایک سرکاری استاد کے لئے سب سے بڑی فکر یہ ہوتی کہ اس کی عمر بھر کی خدمات کا صلہ اور معاوضہ یعنی پنشن اور دیگر واجبات کی ادائیگی بروقت اور ماہانہ پنشن کی وصولی ماہ بہ ماہ بلا تاخیر اور بلاتعطل ہو جائے،جن سرکاری ملازمین کا انحصار تنخواہ اور اس کے بعد پنشن پر ہوتا ہے ان کے تفکرات بھی اس لئے زیادہ ہوتے ہیں کہ انھوں نے ذاتی گھر کی تعمیر، بچوں کی تعلیم، ان کی شادیاں اور دیگر ذمہ داریوں کے اخراجات پنشن سے ہی پورے کرنے ہوتے ہیں اس لئے اگر پنشنرز کو ملنے والی مراعات کم کر دی جائیں، اسے پورے واجبات کی ادائیگی نہ ہو اور پنشن کے نئے رولز بنا کر اس کے مالی فوائد میں کمی کر دی جائے تو وہ شدیدذہنی اذیت کا شکار ہو کر زندہ درگور ہو جاتا ہے اور بعض اوقات حقیقتاً دنیا سے ہی کوچ کر جاتا ہے۔پنجاب کے پنشنر زار باب اختیار اور اقتدار کی خدمت میں چند معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں کہ ملک کیلئے طویل خدمات سر انجام دینے والے پنشنرز کے مسائل اورمعاملات پر ہمدردانہ غور کرنے کے بعد ان کے حل کیلئے فوری اور عملی اقدامات اور احکامات صادر فرمائیں گے تا کہ مہنگائی اور بیروزگاری کے اس پر آشوب دور میں پنشنرز اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھ سکیں اور ان کی مالی اور معاشی پریشانیوں کا کچھ ازالہ ہوسکے۔بجٹ 2023 میں پنشنرز کی پنشن میں 5% اضافہ کیا گیا جو 01.07.2023 کے بعد ریٹائر ہونے والے ملازمین کو admissible تھا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مندرجہ بالا دونوں اضافے (%17.5 اور% 15) وفاق اور دیگر تین صوبوں کے پنشنر ز کومل رہے ہیںصرف پنجاب کے پنشنرز اس سے محروم ہیں جو ان کے ساتھ سراسر نا انصافی اور زیادتی ہے۔اس کے ساتھ ہی ایک اور زیادتی جو صرف حکومت پنجاب کے سرکاری ملازمین کے ساتھ ہوئی اس کا ذکرکرنا بھی ضروری ہے01.06.2023 سے پہلے حکومت پنجاب کے تمام پنشنرز کے پاس ایک آپشن تھی کہ اگر اس کے کریڈٹ پر 365 دنوں کی چھٹی( Leave Earned) ہے تو وہ ایک سال پہلے LPR لے لے یا اپنی سروس مکمل کر کے ان 365 دنوں کی چھٹی کے عوض Encashment Leave لے لے جو کہ Pay x 12 Running پر ملا کرتی تھی لیکن نگران حکومت کے نوٹیفکیشن کے مطابق اس قانون کو تبدیل کر دیا گیا حالانکہ نگران حکومت کے پاس اس کا مینڈیٹ نہیں تھاGovernment of the punjab, Finanace Department, Notification No. FD.SR.II/2-97/2019, Dated: 01.06.2023وفاق سمیت تمام صوبوں میں Running Basic Pay x- پر مل رہی ہے۔ اب 01.06.2023 کے بعد ریٹائر ہونے والے حکومت پنجاب کے ملازمین اس مالی سہولت سے بالکل محروم ہیں۔ حکام بالا سے ہماری درخواست ہے کہ اس نوٹیفکیشن کو فوری طور پر واپس لے کر 01.06.2023 کے بعد ریٹائر ہونے والے پنجاب کے تمام پنشنر ز کو ان کی  Running Basic Pay xپر بھی دی جائے۔

مزیدخبریں