لے سانس بھی آہستہ

Oct 16, 2024

ڈاکٹر عارفہ صبح خان

ڈاکٹرعارفہ صبح خان             
تجا ہلِ عا رفانہ             
 ایک طرف آئینی ترامیم کے مسودوں کا پلندہ ہے تو دوسری طرف حکومتی معاشی اعداد و شمار کا گورک دھندہ ہے جس میں بار بار وزیر اعظم کہتے ہیں کہ مہنگائی سنگل ڈ یجٹ پر آ گئی ہے۔ ملک دن رات ترقی کر رہا ہے۔ چاروں طرف ہُن برس رہا ہے اور راوی چین لکھ رہا ہے مگر ایک طرف نظر آرہا ہے کہ ہفتے میں تین تین مرتبہ دہشت گردی ہو رہی ہے ۔دکی میں دستی بم راکٹ حملے میں 21 کانکنوں کی خوفناک ہلاکت سامنے آئی ہے داسو حملے میں ہلاکتیں ہوئیں اسی طرح سوات اور کئی علاقوں میں دہشت گردی کے نتیجے میں 100 افراد کو بے رحمی سے مار دیا گیا اس کے علاوہ جو ملک بھر میں ہلاکتیں اغوا قتل خودکشیاں ہیںان کی کافی بڑی تعداد ہے اور جو ہلاکتیں پورے ملک میں ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں ہوتی ہیں ان کا تو کوئی حساب کتاب قطار شمار ہی نہیں۔حکومت پاکستان سالانہ ہزاروں افراد کو ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں موت کے گڑوں میں گرنے سے نہیں بچا پاتی ۔ٹوٹی پوٹی سڑکیں بوسیدہ پل کمزور انڈر پاسزکھلے ہوئے گٹر لاکھوں بے ڈھنگے سپیڈ بریکرز ٹریفک رولز کی خلاف ورزی اور بے شمار وجوہات کی وجہ سے ٹریفک حادثات میں ہر روز درجنوں اور کبھی کبھی سیکڑوں اموات واقعہ ہو جاتی ہیں مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی کیونکہ ہمارے ہاں اکثریت گنجوں کی ہے۔ مہنگائی کی یہ حالت ہے کہ ہر آدمی سر کے بال نوچ رہا ہے اب تو مہنگائی اور ٹینشن سے خواتین کی ایک بڑی کھیپ گنجی ہو رہی ہے ۔ایسے میں حکومت کا ترقی کے دعوے کرنا مہنگائی کی شرح کم ہونے کا پراپیگنڈا کرنا اور رات دن ناروا ٹیکس لگا کر اصلاحات کی باتیں کرنا قوم پر تیل چھڑک کر اگ لگانے کی بات ہے ۔پورا ملک مہنگائی کے چنگل میں جکڑا ہوا ہے عوام کو مجنون حواس بنا کر ملکی ترقی اور معیشت بحالی کی باتیں کرنا دل جلانے بلکہ اشتعال دلانے والی بات ہے۔ کوئی پوچھے کہ آئی ایم ایف سے جو تازہ ترین اربوں ڈالر کی وصولی ہوئی ہے وہ کہاں ٹھکانے لگائی ہے ۔سارا کچھ تو آئینی ترامیم کی مد میں خرچ ہو رہا ہے کروڑوں پتی اس کھیل میں ارب پتی اور ارب پتی کھرب پتی بن گئے ہیں۔وہی مولانا فضل الرحمن جو میں نہ مانوں کی رٹ لگائے ہوئے تھے ۔آج وہی موم کی طرح پگھل کر حکومت کے فرش پر ڈھیر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اب فرماتے ہیں کہ آئینی ترامیم میں کافی حد تک ہم آہنگی ہو چکی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے بعد اپ مژدہ سنیں گے کہ مولانا صاحب آئینی ترامیم پر بیعت کر چکے ہیں ۔جس دن ہمیں بھی ترقی کامیابی عہدوں کا چسکا پڑا تو انشائاللہ مولانا صاحب کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔جنت کا کیا ہے جنت کس نے دیکھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت جب سے آئی ہے کروڑوں اربوں ڈالروں کی وصولیاں کر چکی ہے۔ کیا حکومت بتا سکتی ہے کہ اس نے عوام کے لیے کیا کام کیا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس کا کسی کے پاس جواب نہیں ہے جبکہ حکومت ہر وقت راگنی الاپتی رہتی ہے کہ پاکستان ترقی کر رہا ہے زبردست بحالی ہو رہی ہے سٹاک ایکسچینج کا انڈیکس بڑھ رہا ہے مہنگائی سنگل ڈیجٹ پر آگئی ہے لیکن عوام کے حالات ہر دن میں بدترین ہو رہے ہیں ترقی تو صرف حکومت کے اثاثوں میں ہو رہی ہے۔ ہر حکومتی رکن ڈالروں کی گنگا میں اشنان کر رہا ہے اچھے ہوں تو ہر طرف ہریالی ہی نظر آتی ہے۔ کوئی پوچھے کہ پاکستانیوں کو آئینی ترامیم سے کیا فائدہ پہنچے گا آئینی ترامیم کے لیے جو گیم کھیلی جا رہی ہے اس سے اس ملک کو کیا ترقی ملے گی ۔مگر یہاں تو سوال کرنا حرام ہے جرم شدید ہے ابھی سعودی عرب کا وفد آیا ہے تو سبھی نے ذاتی تعلقات میں اضافہ کیا ہے ۔چین کے ساتھ جو دوستیاں گانٹھی جاتی ہیں اس کا ابھی تک کسی ایک پاکستانی کو فائدہ پہنچتے نہیں دیکھا گیا ۔ہر فائدہ ذاتی مفادات کے لیے ہوتا ہے سی پیک کا سنتے سنتے کان دکھ گئے لیکن اب تک کس کو روزگار ملا ،کس کے وارے کے نیارے ہوئے ،کس کا سر اور دھڑ کڑاہی میں گیا ۔یہ ملک جن لوگوں نے جان پر کھیل کر بنایا تھا اس وطن کی خاطر جن لوگوں نے تن من دھن کی قربانیاں دی تھیں وہ بیچارے تو اپنا سب کچھ لٹا کر پر لوگ سدھار گئے۔ آج ان کی نسلیں حیران پریشان ویران اور تہی دست کھڑی ہیں پہلے غلامی سے آزادی کا سفر طے کیا تھا ۔آج آزادی سے غلامی کی راہداریوں میں سرپٹ دوڑ رہے ہیں ۔امریکہ ہماری قسمت کے فیصلے کرتا ہے ہم اس کی مرضی کے بغیر ایران سے تیل یا گیس بھی نہیں لے سکتے ۔روس سے تعلقات قائم نہیں کر سکتے بنگلہ دیش افغانستان بھارت کے ہم سے تیور بگڑے رہتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو ورلڈ بینک کنٹرول کرتا ہے وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک کا تقرر آئی ایم ایف طے کرتا ہے ۔ٹیکسوں کا اجرا ءآئی ایم ایف کرتا ہے حد تو یہ ہے کہ پاکستان بجٹ آئی ایم ایف کی مرضی سے بنتا ہے۔ تمام معاشی پالیسیوں کا تعین بھی آئی ایم ایف کرتا ہے اداروں کو پرائیویٹائز بھی آئی ایم ایف کی منشا سے کیا جاتا ہے۔ ایئرپورٹ اور بڑے بڑے اداروں کی نجکاری بھی آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن سے ہوتی ہے ۔آئی ایم ایف کا سب سے خوفناک حکم سرکاری ملازمین کو کم کرنا اور پنشنر زپر ظلم ڈھانا ہے آئی ایم ایف کی پتہ نہیں دم میں آگ لگی ہے یا پیٹ میں مروڑ اٹھا ہے یا اسے مال خولیہ ہوا ہے کہ وہ غریب مجبور بے بس اور بیمار پینشنرز کی چند ہزار پینشن کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے مگر کمبخت یہ نہیں کہتا کہ یہ جو وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج ہے انہیں نکالو۔ سرکاری رہائش گاہیں خالی کرا¶ مفت کی بجلی گیس پٹرول کا خاتمہ کرو ۔وزرا ءاور تمام حکومتی اہلکاروں کے لیے نئی نئی گاڑیوں کی شاہ خرچیاں ان کے غیر ملکی دوروں پرتعیش کھانے گھروں دفتروں کی آرائش وز بائش بند کرو ۔الودائی اور خیر سیگالی دورے اور ظہرانے و عشائیے بند کرو قومی خزانے کو لوٹنا بند کرو ۔لیکن آئی ایم ایف انتہائی عیاری سے عوام کو موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے ۔اب آئی ایم ایف نے نئی شرائط ڈکٹیٹ کرائی ہیں کہ پاکستان کوئی ایمنسٹی سکیم نہیں دے گا۔ دو ڈسکوز پرائیویٹائز کیے جائیں گے ۔ٹیکس شارٹ فال پر ریونیو اقدامات ہوں گے اور منی بجٹ لایا جائے گا ۔زرعی آمدن پر ٹیکس لگے گا ۔آئی ایم ایف نے ایگریمنٹ کا لیٹر آف انٹنڈ جاری کر دیا ہے ۔جس ملک میں حکومت بھی امریکہ اور آئی ایم ایف کی مرضی سے بنتی ہو اس کی آزادی اور خود مختاری پر سوال اٹھانے کے بجائے دم سادھنا مصلحت کا تقاضہ بن گیا ہے۔ غور فرمائیے کہ 1857ءکے حالات ناگفتہ بہ تھے یا 2024 ءکے حالات کا شکنجہ مضبوط ہے مگر کیا کیجیے کہ غلامی کہ اسیر یہی کہتے ہیںکہ:
                     لے سانس بھی آہستہ کے نازک ہے بہت کام 
                      آفاق کی اس کا ر گہِ شیشہ گری کا 

 
    

مزیدخبریں